en-USur-PK
  |  
Category
30

سیدنا مسیح کا رفع جسمانی

posted on
سیدنا مسیح کا رفع جسمانی

برکت اﷲ ایم اے نیو دہلی

Resurrected Body of Jesus

سیدنا مسیح کا رفع جسمانی

  ہمارے خداوند اور مسیح کے رفع جسمانی پر بعض غیر مسیحیوں نے اعتراضات کئے ہیں ۔ چنانچہ بعض معترض فرماتے ہیں۔ ”نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے۔ کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کرہ زمہر یر تک پہنچ جائے یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے۔ کیونکہ خلاف علم اور خلاف قانون قدرت ہے ۔ کیا وہ اسی جسم آسمان پر گیا اور جی اٹھا اگر یہ سچ ہے تو آج کل مردے اسی جسم سے آسمان کو کیوں نہیں جاتے ۔

  دیگر معترض بھی جوان اصحاب کے خوشہ چین ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہی اعتراض کرتے ہیں۔اہل اسلام اور مسیحی دونوں خداوند کے رفع جسمانی کے قائل ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔ إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ یعنی جس وقت کہا اﷲ نے اے عیسی تحقیق میں مارنے والا ہوں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو طرف اپنے سورہ نسامیں ہے بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ  وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا اٹھا لیا اس (مسیح ) کو طرف اپنے اور اﷲ ہے۔ غالب حکمت والا لیکن معترض خدا کی حکمت کو چھوڑ کر نئے اور پرانے فلسفے اور حکمت سے رفع جسمانی کی محال ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن قرآن شریف فرماتا ہے۔ کہ اﷲ غالب حکمت والا ہے اس مضمون میں ہم ثا بت کر دیں گے کہ اﷲ ہی کی حکمت غالب ہے۔

  وجود یا ہستی دو قسم کی ہے۔ ایک مادی جس کا تعلق ہمارے حواس کے ساتھ ہے۔ دوسری غیر مادی جو غیر مرئی ہے مادی اشیاءہم دیکھ سکتے اور چھو سکتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہم اپنے حواس کے ذریعے کرتے ہیں۔ اور یہ مادی اشیاءاپنے اپنے قوانین کے تابع ہوتی ہیں۔ غیر مادی اشیاءکا تعلق ہمارے حواس کے ساتھ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ان قوانین کے تابع ہوتی ہیں جو مادی اشیاءپر حاوی ہوتے ہیں۔ مادی اشیاءاور مادی وجود کے قوانین کا اطلاق غیر مادی وجود پر نہیں ہو سکتا ۔ ان غیر مادی اور روحانی وجودوں کے قوانین علیحدہ اور مختلف ہوتے ہیں۔اور ان قوانین کا اطلاق بھی مادی اشیاءپر نہیں ہوتا جس طرح غیر مادی اور روحانی وجود مادی اشیاءکے قوانین کے ماتحت نہیں ہوتے اسی طرح مادی وجود روحانی قوانین کے ماتحت نہیں ہوتے اسی طرح مادی وجود روحانی قوانین کے ماتحت نہیں ہوتے۔ مادی چیز یں اپنے قوانین کے تابع ہیں اور غیر مادی اور روحانی چیزیں اپنے قوانین کے تابع ہیں۔ ہمارے خاکی جسم مادہ کے قوانین کے تابع ہیں اور اگر ہم اوپر کو چھلانگ ماریں تو زمین پر آرہیں گے اوپر آسمان کو نہیں چڑھ جائیں گے ۔ کیونکہ ہمارے جسم مادی اشیاءسے مرکب ہیں لہذا اپنے قوانین کے تابع ہو کر چھلانگ کے وقت کچھ دور اوپر جا کر نیچے آکر گریں گے۔ اب اگر خداوند مسیح کا جسم آ پ کی قیامت کے بعد ہمارے جسموں جیسا ہی تھا اور مادی تھا۔ تو خد اوند کا رفع جسمانی نئے اور پرانے فلسفے کے مطابق خلاف علم اور خلاف قانون قدرت ہو گا ۔ پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا خداوند مسیح کا جسم جو آپ کی قیامت کے بعد لوگوں کو دکھائی دیا اور آسمان پر چڑھ گیا ۔ ہمارے مادی جسموں کی طرح مادی تھا یا کہ نہیں اگر مادی تھا۔ تو رفع جسمانی کے قائل غلط ٹھہر ے اگر مادی نہیں تھا۔ تو ہمارے بدنوں اور جسموں کی طرح نہ تھا۔ تو معترض کا طرز استدلال اور قضا ےا اور نیتجہ سب غلط ہوئے۔

  کیا خداوند کا جسم آپ کی قیامت کے بعد ہمارے بدنوں کی طرح تھا ۔ انجیل جلیل کے مطالعہ سے ہم کو اس سوال کا جواب نفی میں دینا پڑتا ہے۔ خداوند کا جسم دفعتاً نظروں سے غائب ہو سکتا تھا۔ لوقا ۔ ۱۳:۴۲۔ جب کمرے کے قفل کو اڑاور دروازے بند ہوتے تو خداوند کا جسم کمر ے میں آسکتا تھا۔ یوحنا ۔ ۱۲:۹۱۔۶۲۔ یہ جسم صورت بھی بدل سکتا تھا۔ ( مرقس ۔ ۶۱:۲۱) یہ جسم پہچانا بھی نہ جاسکتا تھا۔ چنانچہ مریم مگدلینی اور دو شاگرد وجوہر وقت خداوند کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ کو نہ پہچان سکے ۔ لو قا ۔ ۴۲:۲۱ و یوحنا ۔ ۰۲:۴۱ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ جسم ہمارے جسموں کی طرح مادی نہ تھا۔ کیونکہ ہمارے جسم دفعتاً نظروں سے دیکھتے دیکھتے غائب نہیں ہو سکتے ۔

  اگر کمر ے بند اور کو اڑ لگے ہوں تو ہم اس کمرے میں گھس نہیں سکتے ہمارا جسم اپنا روپ اور صورت نہیں بدل سکتا۔ نہ ہمارے جسم کی ہیت ایسی بدل سکتی ہے کہ ہمارے دوست آشنا اور عزیز و اقارب ہمیں پہنچان نہ سکیں ۔ پس ہمارے مادی اور فانی جسم میں اور خداوند مسیح کی جلالی اور غیر فانی جسم میں بہت فرق تھا۔ اسی امر کی طرف مقدس پولوس اشارہ کرتے ہیں۔ جب آپ فرماتے ہیں۔ کہ آسمانی بھی جسم ہیں اور زمینی بھی مگر آسمانیوں کا جلال اور ہے اور زمینوں کا اور ۔۔۔۔۔۔ جسم فنا کی حالت میں بویا جاتاہے۔ اور بقاءکی حا لت میں جی اٹھتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ نفساتی جسم بویا جاتا ہے۔ اور روحانی جسم بھی ہے ۔۔۔۔۔۔ جس طرح ہم اس خاکی کی صورت پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس آسمانی کی صوت پر بھی ہوں گے۔۔۔۔۔۔ مردے غیر فانی حالت میں جی اٹھیں گے۔ اور ہم بدل جائیں گے کیونکہ ضرور ہے۔ کہ یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا کا جامہ پہنے (کرنتھیوں۔۵۱:۴ تا ۴۵)جب خداوند کے فانی جسم نے بقا کا جامہ پہن لیا تو وہ مادی اجسام کے قوانین کے ماتحت نہ رہا۔ کیونکہ ہمارے مادی اور فانی جسموں کے قوانین اور ہیں اور روحانی اور جلالی جسموں کے قوانین اور تو آسمانیوں کا جلال اور ہی ہے جیسا ہم ذکر کیا ان کے قوانین اور ہیں ۔ ہمارے مادی اجسام کے قوانین کا ان پر اطلاق نہیں ہوسکتا۔ پس نئے اور پرانے فلسفہ کے قوانین اس اعلی اور جلالی جسم پر حاوی نہیں اور نہ ہی اس جلالی جسم کا صعود خلاف عقل اور خلاف قانون قدرت ہے۔ کیونکہ یہ جلالی جسم اس قانون قدرت کے تابع ہی نہیں جو مادی اجسام پر حاوی ہے۔ قرآن کریم کا قول کا ن اﷲ، عزیر اً حکماً ( اﷲ غالب اور حکمت والا ہے ) صحیح و درست ثابت ہوا اور معترض کا طرز استدلال مردود ٹھہرا ۔

  اگر کوئی سوال کرے کہ خداوند مسیح کا جسم کہاں گیا تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ ہر ماہران عالم ریاضی اور ماہران سائنس ہم دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن چوتھی جانب غیر مرئی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل اور پنہاں ہے۔ تین اطراف جو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ وہ طول عرض اور موٹائی ہے لیکن چوتھی طرف ہم دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ چونکہ ہم چوتھی جانب کو نہیں دےکھ سکتے لہذا اس کا کوئی وجود نہیں ہو سکتا تو یہ استدلال غلط ہو گا۔ کیونکہ وجود و ہستی کے لئے اس کا مرئی ہونا کوئی لازمی شرط نہیں ۔ خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی ان فانی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ پس جب ماہران علم ریاضی اور علم سائنس ہم کو یہ بتاتے ہیں۔ کہ اس عالم کی چوتھی جانب غیر مرئی ہے اور وجود میں ہے۔ تو اس میں ہرگز کوئی چیز خلاف عقل نہیں ہو سکتی۔

  مرحوم پر وفیسر کرسٹل اپنے طلباءکو فرمایا کرتے تھے ۔ کہ ریاضی سے ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس چوتھی غیر مرئی طرف اور جانب میں مادہ پر کس طرح عمل ہو گا ۔ پس ہمارے ارد گرد ایک اور غیر مرئی عالم ہے جو گو ہماری محدود آنکھوں سے اوجھل ہے تاہم حقیقت میں موجود ہے اب ذرا اس جلالی جسم کا خیال کریں جس کا ذکر مقدس پولوس اپنی تجربات میں کرتا ہے۔ خداوند کا جلالی جسم نہ صرف تین اطراف والے عالم میں ہی رہتا تھا۔ بلکہ اسی چوتھی طرف یا غیر مرئی عالم میں بھی رہتا تھا۔ اور دفتاً فوقتاً اپنے شاگردوں کو وہاں سے اتر کر دکھائی دیتا تھا۔ لیکن جب وہ عالم غیر مرئی میں چلا جاتا تھا۔ تو اپنے شاگردوں کی نظروں سے غائب ہو جاتا تھا۔ ( لوقا ۔ ۴۲:۲۱) حوارئین نے انسانی زبان میں اس حقیقت کو یو ں بیان کیا کہ وہ (مسیح) ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا۔ ( اعمال ۔ ۱:۹) اپنی حواس کی شہادت کو وہ انہی الفاظ میں ادا کر سکتی تھے۔ آسمان ”اوپر “ ہے یا ”دور“ ہے۔ یہ ہم اپنے الفاظ میں ہی کہہ سکتے ہیں۔ الحقیقت آسمان ایک عالم ہے۔ جو غیرمرئی ہے ہمارے ارد گرد ہے لیکن ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔ اس عالم کا تصور ہم نہیں کر سکتے کیونکہ تصور اندیکھی چیزوں کا نہیں ہو سکتا لیکن یہ جلالی عالم در حقیقت موجود ہے۔ اگرچہ فانی انسان نہ اس کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کا بیان کر سکتا ہے۔ لیکن اگرچہ ہم اس کا تصور اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں باندھ سکتے تاہم یہ ہمارے فہم و ادراک میں آسکتا ہے اور عقل کے خلاف نہیں بلکہ سراسر مطابق ہے خداوند مسیح کا جلالی جسم اس روحانی اور غیر مرئی عالم میں سکونت کرتاہے۔ وہ اپنے جسم کو تھوڑی مدت کے لئے اس عالم غیر مرئی سے اس عالم مادی میں لے آتا ہے ۔ لیکن یہ مادی اور فانی عالم اس غیر فانی جلالی اور روحانی جسم کی جگہ نہ تھی پس وہ یہاں سے اس عالم میں رخصت ہوا۔ اور ہماری نظروں سے پنہاں ہو کر وہاں اس عالم غیر مرئی اور روحانی دنیا سے ہماری مدد کرتاہے۔

        کلمہ اول

  سیدنا مسیح نے اپنا پہلا کلمہ اس وقت زبان مبارک سے نکالا جب سپاہی اس کے دست و پا صلیب کی لکڑی پر بڑی بے دردی سے کیلوں سے ٹھونک رہے تھے۔ اس نے یوں دعا کی۔ اے باپ انہیں معاف کر کیونکہ نہیں جانتے کہ کیا کررہے ہیں اس سے بڑی مدت قبل اس نے اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا۔ کہ جو لوگ ان کا کوئی قصور کریں وہ انہیں معاف کر دیں اور اپنے دشمنوں کے لئے دعائے خیر مانگا کریں۔ اب وہ اپنی تعلیم کو خود ہ عملی جامہ پہناتا ہے ۔ اسے پورا یقین ہے کہ اس کا روحانی باپ اس دعا کا جواب ضرور دے گا ۔ وہ جانتا ہے کہ باپ سب انسانوں کو پیار کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ وہ گناہ میں ہلا ک ہو بلکہ یہ کہ وہ توبہ کریں اور اس سے معافی پائیں یہی مقصد تھا۔ جس کے لئے یسوع صلیب پر مر رہا تھا۔ اس نے دعا کی اے باپ ! انہیں معاف کر ۔۔۔۔۔۔۔

Posted in: یسوع ألمسیح, اسلام, غلط فہمیاں | Tags: | Comments (1) | View Count: (18441)

Comments

  • I live in USA and love to read about Jesus.I read an article written by a christian professor of theology in a theology university in USA,that Jesus was none but a human being who on the streets of Jerusalem walked with dirty hands and ate with them and therefore used to have diarrhea.You say something opposite.Now should I believe you or the professor of theology in christian religious university in USA>
    11/9/2016 2:33:47 PM Reply
Comment function is not open