en-USur-PK
  |  
02

جہاد

posted on
جہاد
                                                انتباہ

اسلامی کتب میں قرآن اور احادیث ہی حرف ِ آخر ہیں ۔ مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کا الہی مکاشفہ ہے، (مختلف ترجموں میں آئیتوں میں خفیف سا اختلاف پایا جاتاہے)۔ ہر سورۃ پورے باب کا پیشہ خیمہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق محمد مرد کامل کے طور پر ایک نمونہ ہیں جس کی تقلید ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو کچھ انہوں نے کہا اور عمل میں لائے وہ حدیث کہلاتی ہے۔ احادیث چھ طرح کی ہیں۔ احادیث : بخاری ، مسلم، ابو داؤد ، ترمزی، سنن ابنِ ماجہ، اور سنن نسائی۔ اس کتابچہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو محمد کی تعلیمات اور انکے کاموں سے روشناس کروایا جائے، نہ کہ ان کے جذبات کو برانگیختہ کیا جائے؛ مسلمانوں کو کسی حد اپنے خدا  کے بارے میں آگاہی ہو کہ اس موضوع کے حوالے سے اللہ اور محمد نے کیا کہا ہے۔

روز و شب کی بھاگ دوڑ میں بعض اوقات ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کے اس سفر میں ہماری زندگیاں ہوا کہ ایک جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں۔ زندگی نہائیت غیر یقننی ہے، یہ کسی وقت بھی اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے ، خاصکر اس دور میں جہاں جنگوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی بھرمار ہے۔

مسلمان دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے قرآن اور محمد کی زندگی کو بطور ہدائیت استعمال کرتے ہیں، جبکہ اہل فکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی تعلیمات موجود نہیں، یا قرآن کی غلط تفسیر کا نتیجہ ہیں۔

اس لئے یہ امر اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان دونوں مکتبہ فکر کی تعلیمات اور دعوؤں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس دین کے بانی کے زندگی اور تعلیمات اور طرز زندگی  کا بغور مطالعہ کریں۔

 

 

سنت محمدی:

ابن اسحاق 326 کیمطابق اللہ نے فرمایا، " محمد سے پہلے کسی نبی نے اپنے دشمنوں سے لوٹ کے مال کا مطالبہ نہ کیا اور نہ ہی فدیہ کیطور پر قیدیوں کا مطالبہ کیا " ، محمد نے کہا، میں ڈر و خوف کی وجہ سے غالب آیا ہوں ، مجھے دنیا کو غلاظت سے پاک کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ طاقتور الفاظ سے نوازا گیا ہے۔ لوٹ کا مال میرے لئے حلال قرار دیا گیا ہے ، مجھے درمیانی کے اختیارات حاصل ہیں۔ یہ پانچ بنیادی رکن مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔

جب محمد کمزور اور ضرورتمند تھا، اس نے امن کی بات کی، جب اس کے ہاتھ دولت لگی، اور فوج جمع ہوچکی تو اس نے منصوبہ بندی کے تحت مسیحیوں، یہودیوں اور دیگر لوگوں کے خلاف تقریباً  67 جنگیں لڑیں۔ مسلمان دہشت گردوں کی وجہ تسمیہ کا ایک طائرانہ جائزہ ، مکمل طور پر یہ واضع کردیتا ہے کہ غیر مسلمین یا کفار کے خلاف جہاد کیوں برسرپیکار ہیں۔

بہت سے اس بات کی مخالفت میں یہ کہینگے کہ جہاد کا اصل مطلب ، "نفس پر قابو کی جنگ ہے" لیکن ولید شوبات جو کہ ایک مسلمان دہشت تھے اور اب مسیحی ہو چکے ہیں، فرماتے ہیں، " بالکل ایسے ہی جیسے ہٹلر کی لکھی ہوئی کتاب بنام " مین کماف"۔ بہت سی اقسام کے جہاد موجود ہیں، لیکن زیادہ تر کی تلاش یہی ہے کہ دنیا پر اللہ کا غلبہ مکمل کیا جائے، جس کے لئے اللہ کی مرضی پر انحصار بھی ضروری ہے لیکن زیادہ تر، طاقت کے استعمال پر ہی زور دیا جاتا ہے۔

قرآن میں بیشمار مقامات پر آیا ہے کہ اللہ اور محمد امن و صلح پسند ہیں، لیکن زیادہ ترآیات دوران قیام مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، جب اسلام ابھی نوزائیدگی کے دور سے گزر رہا تھا اور کمزور تھا۔ بعد کی تعلیمات میں شدت کا عنصر نمایاں ہے۔ جن میں سب سے زیادہ سورۃ 9:5؛اور سورۃ 9:29 خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور "تلوار والی آیات" کہلاتی ہیں۔

سورۃ 9:5، التوبہ " جب عزت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ "

سورۃ  9:29، " جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ "

معروف اسلامی اسکالر انوار الحق اپنی تصنیف ، " قرآن میں تنسیخ " کے اندر  سے زائد 100 ایسی آیات کا ذکر کرتے ہیں جو ان دو آیات کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہیں، مثلاً ، سورۃ 2:256، "  دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے " اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے ۔ "

          سورۃ 7:199، "اے محمد عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو "

سورۃ 45:14، "  مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو اعمال کے بدلے کے لئے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلے دے"

سورۃ  109:6، " تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر"

وقت کیساتھ محمد کی تعلیمات میں تغیر؛  جہاد لازم :

جب محمد طاقتور ہوتا چلا گیا، تو اس نے یہ تلعیم دینی شروع کردی کہ اگر تم جہاد سےمنسلک نہ ہوئے تو تمہارا دائمی انجام دوزخ اور دردناک تکلیف تباہی ہوگا۔ (سورۃ 48: 16 تا 17 آیات، 9:81؛ 9:94؛ اور 95 آیات) جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں ان کیلئے جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (سورہ 3 اس کی 157 تا 158)۔ جو مسلمان جہاد میں حصہ لیتا ہے وہی سچا مسلمان ہے ( سورۃ 49:15؛ 9:44)، ایک اندازہ کے مطابق قرآن میں جہاد سے متعلق 480 حوالہ جات موجود ہیں۔ یہاں چند ایک پیش کئے جا رہے ہیں:

سورۃ 2:216، " (مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ "

سورۃ  8:67، " پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اس کے قبضہ میں قیدی رہیں جب تک  (کافروں کو قتل کر کے ) زمیں میں کثرت سے خون نہ بہا دے! تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔

سورۃ 9:44، "  جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا ڈرنے والوں سے واقف ہے "

سورۃ 8:74، " اور جو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی۔ یہی لوگ سچے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اور عزت کی روزی ہے "

سورۃ 49:15، " مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں۔ "

سورۃ 4:76، " جو مومن ہیں وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو۔ (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ بودا ہوتا ہے۔ "

البخاری، حدیث نمبر 24، جلد نمبر 1 کیمطابق، " ابن عمر سے مروی ہے ، کہ اللہ کہ رسول نے فرمایا، " مجھے پر لڑنے کا حکم نازل ہوا ہے جب تک کہ میں اللہ کا حکم قائم نہ کردوں، کہ سب یہ اقرار کریں کہ اللہ ایک اور محمد اس کا رسول ہے۔ 

سورۃ 2:217 کے مطابق، لوگوں کا اللہ کا منکر بنانا کسی کو قتل کرنے سے زیادہ قبیح گناہ ہے۔ اس بنا پر کسی کافر کو جو لوگوں کو اللہ کا منکر بنائے، واجب القتل ہے۔ علاوہ ازیں ترمزی، حدیث نمبر 402 میں رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں، جو اللہ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں انہیں صرف اتنی ہی ضرر پہنچتی ہے جتنی چیونٹی کے کاٹنے سے۔  محمد خود بھی اللہ کی راہ میں بار بار شہید ہونے کی خواہش رکھتا تھا، ( البخاری، حدیث نمبر 35، جلد نمبر 1 اور اس کے علاوہ دیکھئے البخاری ، حدیث نمبر 220، جلد نمبر 4، جسمیں لکھا ہے کہ " رسول اللہ فرماتے ہیں، " کہ میں دہشت کے ذریعے سے غالب آیا ہوں "

الطبری 9، صحفہ نمبر 42  میں ایک کافر بنام عامر بن امیہ نے کہا، " ہم ایک ایسی مصیبت سے گزرے، جس سے بچنا ممکن نہیں  تھا، تم نے دیکھا کہ محمد نے ہم سے کیا کیا۔ اہل عرب نے اس کی اطاعت قبول کرلی اور ہم اتنی سکت نہیں کہ ہم اس سے لڑ سکیں۔ تم یہ جانتے ہو کہ کوئی جماعت اس سے محفوظ نہیں، اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ باہر نکل کر اس دہشت کا سامنا کر پائے۔ یہ تو صرف چند ایک مختصر حوالہ جات ہیں جو قران سے لئے گئے ہیں ، 9 سالوں میں خود اس نے 27 جنگوں میں حصہ لیا (ابن کثیر ۔ عبدیاہ و-نحیاہ۔ جلد نمبر 4، صحفہ نمبر 179) ایسی بیشمار آیات موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ محمد کی تعلیم ، اس کے اعمال پر مبنی تھی، یعنی اللہ کی راہ میں خون ریز جہاد!

یسوع کا جہاد فرق نوعیت کا تھا:

اس کے برعکس جب جنابِ مسیح کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت جلد ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ گنگاروں کا انبوہ غفیر ان کا دیوانہ تھا، اور لوگ ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح سے ان کی قربت انہیں میسر آ سکے۔ انہیں ان کی قربت سے موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔

کوئی شک نہیں کہ جناب مسیح نے ایک موقع پر فرمایا کہ " یہ نہ سمجھو کہ میں دنیا میں صلح کروانے آیا ہوں ، صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے ( متی 10:34) ، لیکن وہ اس موقع پر مسیحیوں کی جانب اشارہ کررہے تھے کہ وہ بے دین لوگوں کی تلواروں کی نزر ہونے کو ہیں۔ اور جب ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد نے یسوع کے مخالف  پر حملہ کیا تو جناب مسیح نہ صرف اس آدمی کو چنگا گیا بلکہ اپنے شاگرد کو ڈانٹا ( لوقا 22 اس کی 49 تا 51 آیات)   محمد لوگوں کو بزور طاقت اطاعت پر مجبور کرتا تھا، جبکہ جناب مسیح لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کی تلاش میں تھے۔ یسوع نے فرمایا ، " میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں ۔ اگر میری بادشاہی دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تا کہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔ " (یوحنا 18:36) ، جناب مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ " اپنے مخالفتین کا مقابلہ نہ کرو " ( متی 5:36) ، " جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے لئے برکت چاہو، برکت چاہو۔ لعنت نہ کرو" (رومیوں 12:14) اور " اپنے دشمنوں سے محبت کرو اور جو تمہیں ستاتے ہیں ان کے لئے دعا کرو" (متی 5:44)

اللہ ، محمد اور جناب مسیح کی تعلیمات میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے۔ محمد جنت کے لئے کسی کا بھی ضمانتی نہیں، صرف اللہ کی مرضی پر منحصر ہے ، جبکہ مسیح نے آپ کی مفت نجات کے لئے اپنی جان گزارنی ، جو آپ خود سے کبھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ افسیوں 2 باب اس کی 8 تا 9 آیات میں یوں درج ہے ، " کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔ "

ہم نے یہ پیغام آپ تک اس لئے پہنچایا ہے کہ ہمیں آپ سے محبت ہے اور ہم آپ کو بہشت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب آپ خدا کی عدالت میں اس کے حضور پیش کئے جائینگے تو آپ اپنی لاعلمی کا عزر پیش نہیں کرسکیں گے۔ یہ فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے، اور آپ اپنے فیصلے کے جوابدہ ہونگے۔

Posted in: اسلام, مُحمد, تفسیر القران | Tags: | Comments (8) | View Count: (21923)

Comments

  • بھائی فہد خوش آمدید، ہم آپ کے نیک جذبوں کی قدر کرتے ہیں، اور آپ نے کہا کہ ہم دوسرے چینلز کی طرح انصاف سے کام نہیں رہے؟ آپ ہمیں یہ تو بتا دیجئیے کہ ہم نے کب انصاف کا خون کیا؟ تاریخ کو جاننا کون سا گناہ ہے اور فرض کریں کہ اگر کہ اگر آپ بیمار پڑ جائیں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں اور وہ ڈاکٹر آپ سے یہ کہے کہ آپ بیمار تو ہیں لیکن مجھے اس بیماری کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا ، اور پھر آپ کو کچھ ٹیسٹ لکھ کردے، تو کیا آپ وہ ٹیسٹ کروائینگے یا نہیں؟ اگر آپ یہ ٹیسٹ نہیں کروائینگے تو یقنناً مرجائینگے، سچائی جاننا بہت ضروری ہے ، زندگی چینل کی یہی کوشش ہے کہ مسلمان بہن بھائیوں کو یہ بتایا جائے کہ وہ مذہب کے نام پر گناہ کی انتہائی گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں، وہ اپنی آخرت کا سودا کرچکے ہیں، لیکن مسیحیت ان کےلئے ایک آخری موقع لیکر موجود ہے،جناب مسیح آج بھی زندہ ہیں ، اور آپ کو نجات کی دعوت دیتے ہیں، دنیا میں امن و آشتی سے زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں، آپ کے دل کو سکون فراہم کرتے ہیں۔ ہمارا چینل وہ واحد چینل ہے جو مسلمانوں کو ان کے مرض سے آگاہ کررہا ہے، دوا صرف اور صرف جناب مسیح کے پاس ہے
    28/09/2014 3:09:40 PM Reply
  • Dear brothers and sisters, first i will like to express my sadness on this article, The writer and this TV channels like other tv channels in Pakistan are not doing justice. As muslim i respect the view points of our Christian brothers living in Pakistan which is as mush as their as mine, At this point of time we must focus on peace stability of out community and nation . Where these channels and writers are trying to do destabilization and preaching hatred in our communities I request you to be peaceful respectful loving and forgiving.
    27/09/2014 1:49:33 AM Reply
    • @Fahad: بھائی فہد آپ نے آخر میں مسیحیوں سے یہ درخواست کی ہے کہ ہم امن کے تگ و دو کریں، معافی کی تعلیم دیں اور دوسروں کی عزت کریں، لیکن آپ ہمیں خود ہی بتائیے کہ یہ ضرورت ہمیں ہے یا آپ کو؟ کیونکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں اسلام کے ماننے والے موجود ہیں، دنیا کا حال برا کرکے رکھ دیا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ آپ قرآن اور احادیث کو دنیا میں اسے اٹھا دیں تو امن خود بخود قائم ہوجائیگا۔ شکریہ!
      28/09/2014 3:15:08 PM Reply
  • اور یاد رکھئے کہ جب ہم خلافت عثمانیہ کی بات کرتے ہیں تو ہمارے اذہان کبھی بھی مصر میں موجود ملسم بردرہڈ کو ان سے علیحدہ تصور نہیں کرتے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو کہ آج ثابت ہونے چلی ہے ، اور آج عراق اور دیگر عرب ممالک میں خون خرابہ ہے وہ خلافت عثمانیہ کے ماننے اور چاہنے والوں کے سسب ہی سے بلکہ یوں کہہ لیجیئے تمام دنیا میں
    02/09/2014 9:04:36 PM Reply
  • ویسے عمر فاروق صاحب آپ تھوڑی سی تکلیف برداشت کر کے تحقیق کر کے یہ بتلا سکتے ہیں کہ جب ہٹلر نے یہودیوں پر ظلم کیا تو اس نے جناب مسیح کے بیان کردہ الہی کلام میں سے کون سے آیت کا استعمال کیا ، یا اس کے ہاتھوں میں بائبل ہوا کرتی تھی ؟ اور اگر آپ چاہیں ، صرف آپ کے کہیں تو میں آپ کے تمام جہادیوں کے ہاتھوں میں قرآن اور تقریروں میں جب وہ جہاد کے لئے لوگوں کو اکساتے ہیں قرآنی سورۃ بمعہ آیات اور حدیثوں کا انبار لگا سکتا ہوں۔ ویسے آپ فیس بک استعمال کرنا کب بند کررہے ہیں یہ بھی کسی یہودی یا مسیحی کا ہی کام ہوسکتا ہے جن سے آپ کا قران بہت زیادہ نفرت کا اعادہ کرتا ہے، افسوس آپ کے نبی اور اللہ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہودی اور مسیحی حضرات ایسی تخلیقوں کے موجود ہونگے جب کہ نہ وہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا چاہتے ہیں
    02/09/2014 8:45:28 PM Reply
  • عمر فاروق صاحب ویسے تو مسلمان کسی ایک ماں کی اولاد نہیں ہوتے ،اور ابتدائی عرب میں کیونکہ قبائلی جنگیں بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں تو بدو حضرات اپنی بیویوں کو جنگجوؤں کے حرموں میں بھیجا کرتے تھے تاکہ ان کی بیویوں سے جو بچے پیدا ہوں وہ جنگجو اور طاقتور ہوں، (کوائف العرب پڑھئیے گا کبھی) ہم نے آپ کی بات کا برا نہیں منایا، کیونکہ ان پڑھ اور جاہلوں کا مسیحی علماء برا نہیں منایا کرتے، اور جہاں تک تعلق ہے ہولوکوسٹ کس نے کرایا تو وہ ہٹلر نے کرایا، اور سارا یورپ اس کے خلاف تھا، اور سارا یورپ اس وقت مسیحیت کے زیر اثر تھا، تو اگر مسیحیوں نے ہٹلر کی شکل میں یہ کیا تو پھر دوسرے مسیحیوں کا کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ہٹلر کو شکست دیتے، کیونکہ آپ لوگوں کو علم وفراست سے کوئی سروکار نہیں، اس لئے ہم آپ کی علمیت کا مزاق نہ اڑاتے ہوئے تھوڑا سے اٖضافہ کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس وقت کی طاقت اسلامیہ یعنی خلافت عثمانیہ یعنی ترک حضرات نے کس کا ساتھ دیا تھا، جناب آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ مسلمانوں نے یعنی خلافت کے داعیوں نے ہٹلر کا ساتھ دیا تھا، ہم یہاں پر ایک لنک پوسٹ کررہے ہیں تا کہ آپ کو اپنی ولدیت پر کوئی شک نہ ہو پلیز، اسے ضرور پڑھئیگا، آپ کوعلم و فراست کی قسم http://www.billionbibles.org/sharia/hitler-muslim-brotherhood.html
    02/09/2014 8:40:11 PM Reply
  • @Umer Farooq: The reasoning is not attacking who ask question, the reasoning is to defend what has been suggested. Ap ka sawal ky ko sey Christian Sahi Hain, to Answer is Wo jo Jesus ko follow kertey hein ur Uski teaching jo Injeel mein hein per amal kertein hein. Agar koi Gunah kerta hei aur kisi ka qatal kerta hei to wo hood ko Christian to keh sakta hei lakin wo Jesus ka follower nahin ho sakta. Lakin agar eik Muslim Jihad nahi kerta to wo quran per Amal nahi kerta na hi muhammed ki sunat per amal karta hai. Jahan tak bap ki bat hei to iska jawab Mashi ka follwer hotey hoi yehi hai ke Khuda ap per reham kery aur is hateful language ki saza na dey.
    31/07/2014 2:11:10 AM Reply
  • kona say christian sahi hain, Catholic ya mathodist ya Protestant holocaust kis ne kia tha kia wo MUSLIM thay jinho ne duya ka sab se bara Qatle aam kia wo christian terrorists thay agar apnay bap k ho to meray swal kajawab do wese tamam christian 1 bap ki olad nahi hotay
    01/07/2014 7:12:28 AM Reply
Comment function is not open
English Blog