en-USur-PK
  |  
30

حضرت پطرس کی ساس کوشفا بخشنا

posted on
حضرت پطرس کی ساس کوشفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

13-Miracle   

Jesus Heals Peter's Mother-in-Law

Matthew 8:14-17     

       


حضرت پطرس کی ساس کوشفا بخشنا

۱۳ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی۸باب ۱۴تا ۱۷آیت

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

حضرت مرقس اور حضرت لوقا کے مطالعہ سےمعلوم ہوتاہے کہ یہ معجزہ پہاڑی وعظ سے پہلے سبت کے دن کفر ناحوم کے عبادت خانہ کو چھوڑنے کے بعد واقع ہوا۔ لیکن حضرت متی جب ان معجزوں کا ذکرکرتے ہیں تو وقت اور جگہ کا لحاظ نہیں کرتے ۔

حضرت متی ۸باب ۱۴آیت ۔اور جنابِ مسیح نے پطرس کے گھر میں آکر اس کی ساس کو تپ میں پڑے دیکھا۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ اس معجزہ کے بعد سرزد ہوا جس کا تذکرہ ہم نے ابھی ختم کیاہے۔ یعنی عبادت خانہ میں بدورح کونکلنے کے بعد وہ حضرت پطرس کے گھر میں تشریف لے گئے اور وہاں ان کی سا س کو شفا بخشی۔

پطرس کے گھر میں آکر۔ اندریاس عالباً اپنے بھائی کے گھر میں رہتا تھا۔ اور یعقوب اور یوحنا اور اس وقت مسیح کے ساتھ ان کی ملاقات کو آئے ہوں گے ۔ پطرس اور اندریاس بیت صیدا (حضرت یوحنا 1باب 24آیت ) کے رہنے والے تھے ۔ لیکن اغلب ہے کہ یہاں آبسے ہوں گے ۔ یا شائد بیت صیدا کفرنا حوم کے قریب واقعہ ہوگا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بیت صیدا کفر ناحوم کا بندرگاہ تھا۔

دیکھو اندریاس بڑا تھا۔ وہی پطرس کو مسیح کے پاس لایا تھا۔ اور وہی پہلے بلایا گیا تھا۔ تاہم اس کا نہ اس جگہ اور نہ کسی اورجگہ اتنا ذکر آتا ہے جتناپطرس کا ۔

اس کی ساس کو تپ میں پڑے دیکھا۔ حضرت لوقا بتاتا ہے کہ "بڑی تپ چڑھی تھی " اس زمانہ میں تپ دو قسموں میں تقسیم کی جاتی تھی ۔ اور حضرت لوقا جوطبیب تھے اصطلاحی لفظ"بڑی تپ " استعمال کرتے ہیں۔ اور بعض کی رائے ہے کہ یہ تپ اپنی علامتوں سے ٹائفیڈ معلوم ہوتی ہے۔ ملیریا فیور یردن کے دہانہ کے نزدیک بسبب دلدل کے عام ہے ۔

آیت نمبر ۱۵۔جناب ِ مسیح نے اس کا ہاتھ چھوا اور تپ اس پر سے اتر گئی اور وہ اٹھ کر آپ کی خدمت کرنے لگی۔

حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ اس کی طرف جھکا اور تپ کو جھڑکا ۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے اس کی منت کی کہ وہ اسے بخار سے آزاد کرے۔ ہمارا مالک صرف حکم کے وسیلے بڑے فاصلہ سے مریضوں کو اچھا کردیتے ہیں۔ پر عموماً وہ مریض کو چھوا کرتے تھے۔ یاہاتھ سے ان کو پکڑا کرتے تھے۔ اور اس کی یہ غرض تھی کہ یہ بات روشن ہوجائے کہ معجزے کی قدرت کا اصل چشمہ وہ خود ہے۔

اور اٹھ کر آپ کی خدمت کرنے لگی۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں ہے "ان کی خدمت کرنے لگی "۔ یعنی مسیح کی اور آپ کے رفیقوں کی جو آپ کے ساتھ تھے خدمت کرنے لگی ۔ اور اس خدمت سے غالباً مہمان نوازی کے لوازمات کوپورا کرنا مراد ہے ۔ یعنی وہ عام طریقہ جس سے عورت اپنے گھر میں اپنی شکر گزاری ادا کرسکتی ہے۔ مقدس جیروم فرماتے ہیں کہ جس ہاتھ کو چھوا اور شفا بخشی۔وہی اب خدمت کرنے لگ گیا۔ اور یہ نمونہ انکےلئے ہے جو روحانی طور پر شفا پاتے ہیں۔ چاہئیے وہ اپنی نئی طاقت کو مسیح اور اس کے لوگوں کی خدمت میں صرف کریں۔ دوسرا خیال غور طلب یہ ہے کہ اس نے دیر نہیں کی بلکہ فوراً خدمت کرنے لگی۔ واضح ہو کہ سخت بخار کے بعد لوگ کمزور ہوجاتے ہیں۔ اور فوراً اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے قابل نہیں ہوتے۔ لیکن یہ شفا ایسی کامل تھی کہ وہ فوراً کام کرنے لگ گئی۔ طاقت بتدریج نہیں آئی بلکہ اسی وقت آگئی۔ پھر یہ بھی غور کے لائق ہے کہ اس نے خدمت میں تاخیر نہیں کی۔

یہ معجزه اور اس سے پہلے معجزے ایسے مشہور ہوئے کہ شام کے وقت بہت مریض اور بدروحوں کے گرفتار اس سے شفا پانے کے لئے آئے ۔ چنانچہ لکھا ہے ۔

آیت نمبر ۱۶۔جب شام ہوئی تو لوگ آپ کے پاس بہت سے شخصوں کو لائے جن میں بدروحیں تھیں۔ اس نے روحوں کوکلام ہی ذریعہ نکالا اور سب بیماروں کو اچھا کیا۔

حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ" جن کے ہاں طرح طرح کی بیماریوں کے مریض تھے لوگ ان کو سورج کے ڈوبنے پر آپ کے پاس لائے۔

شام کو لائے کیونکہ اس وقت گرمی کم ہوگئی ۔یاشائد اس لئے کہ اس دن سبت تھا اور یہودیوں کے دستور کے بموجب شام کے وقت سبت ختم ہوجاتا تھا۔اس نے روحوں کو بھی نکالا۔ مگر کلام ہی کے وسیلے دیکھو جس طرح مسیح نے کوڑھ اور تپ والوں کوچھوا اس طرح ان اشخاص کوجن بدروحیں تھیں کبھی نہیں چھوا۔

یاد رہے کہ جناب ِ مسیح خود سبت کے روز شفا بخشنے سے پس وپیش نہیں کرتے ۔اس نے اس سبت کے روز بھی معجزہ کیا۔ اور اس کے بعد بار بار سبت کے دن معجزات دکھائے۔

ایک مسیحی عالم کا یہ ریمارک بہت خوب ہے "سورج جو کہ آج ان مصیبت زدہ بیماروں کے گروہ کودکھ میں مبتلا دیکھ کر غروب ہوا تھا ۔ کل انہیں اپنے طلوع کے وقت تندرست پاتا ہے۔

ہمارے آقا ومولا کےمعجزے بے شمار تھے۔ جو انجیل شریف میں رقم ہیں وہ مشتے نمونہ ازخروارے کا کام دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اس  نےبے شمار معجزے کئے۔ مثلاً صرف متی کی انجیل میں دیکھو (4باب 24آیت ،9باب 35آیت ،11باب 4آیت ،12باب 15آیت ،14باب 35آیت ،15باب 30آیت ،19باب 2آیت )ان بے شمار معجزوں پر غور کرنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ مسیح کس قدر اوروں کی بھلائی کے لئے ایسے کام کیا کرتے تھے۔

حضرت متی اس موقع پر ایک نبوت  حضرت یسعیاہ کی کتاب سے اقتباس کرتے ہیں۔ جس میں چند مشکلات ہیں جن کا حل کرنا بہترمعلوم ہوتا ہے۔ وہ نبوت یہ ہے "اس نے آپ ہماری کمزوریاں لے لیں اور بیماریاں اٹھالیں"(بائبل مقدس صحیفہ حضرت یسعیاہ 53باب 4آیت )ان واقعات کی جو الفاظ مذکورہ بالا میں مندرج ہیں نبوت کی گئی تھی۔اور وقت معینہ پر پوری ہوئی۔ یہ چھٹی نبوت ہے جو متی اقتباس کرتے ہیں۔ (دیکھو 1باب 23آیت ،2باب 5آیت ،15باب 23آیت ،4باب 14آیت )یسعیاہ 52باب 13سے 53باب 12آیت تک مسیح کی ان تکالیف اور دکھوں سے علاقہ رکھتے ہیں۔جو اس نے ہمارا عوضی ہوکر ہمارے لئے اٹھائیں۔(مقابلہ کریں انجیل شریف خط اول حضرت پطرس 2باب 24آیت )اب مشکل یہ ہے کہ حضرت پطرس کے مذکورہ بالا مقام کے مطابق تو مسیح گناہوں کا اٹھانے والا ثابت ہوتا ہے لیکن حضرت متی اس جگہ اسے بیماریوں اور کمزوریوں کا اٹھانے والا بتاتا ہے ۔ اور حضرت متی اصل کے زیادہ قرین معلوم ہوتا ہے ۔ اب اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا مسیح نے ہماری کمزوریاں اور بیماریاں جو ہمارے گناہوں  کی سزا یا نتیجہ ہیں اٹھالیں ۔ حضرت متی اور حضرت پطرس میں جو بظاہر جو فرق معلوم ہوتا ہے وہ حل ہوجائے گا ۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ نوشتوں میں اخلاقی اور جسمانی دکھ میں بڑا گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ او رہم دیکھتے ہیں کہ قریباً ہر زبان میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن کا اطلاق اخلاقی  اور جسمانی بدی دونوں  پر ہوتا ہے ۔ پر مشکل اس بات میں ہے کہ مسیح نے یہ بیماریاں اپنے اوپر کس طرح لے لیں یا اٹھالیں ؟البتہ اس نے بیماروں کی بیماریاں دور تو کیں مگر اپنے اوپر نہیں لیں۔

ایک حل اس مشکل کا یہ ہے کہ اس کی محنتیں جو وہ بیماروں کو شفا بخشتے وقت اٹھاتا تھا اس روز دن کے خاتمے پر بھی ختم نہ ہوئیں۔بلکہ اس نے غروب آفتاب کے بعد بھی اپناکام جاری رکھا ۔ جس کے سبب سے وہ تھک گیا اور تھکنے سے اس کو جو کامل انسان تھا دکھ پہنچا ۔ لہذا اس معنی میں اس نے اوروں کی بیماریاں اپنے اوپر اٹھالیں کہ ان کی بیماریوں کو شفا بخشنے کے سبب خود تکان اور ماندگی میں گرفتار ہوا۔

ایک شرح یہ پیش کی  گئی ہے کہ یہ طاقت اس کی باطنی بھر پوری سے نکلتی تھی۔ اور جس طر ح وہ جسمانی طاقت کو صرف کرنے سے تھک جاتاتھا اسی طرح روحانی طاقت کے صرف کرنے سے روحانی طور پر تھک جاتا تھا۔ لہذا اس  معنی میں اس کا تھک جانا گویا بیماروں کی بیماریوں کو اپنے اوپر اٹھالینا تھا۔ ٹرنچ صاحب اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اول یہ تعلیم صحیح نہیں اور پھر یہ ثابت نہیں کہ حضرت متی دیگر معجزوں اور کاموں کو نظر انداز کردیتا ہے۔اور فقط اسی دن کی محنتوں پر یسعیاہ کی نبوت کو چسپا ں کرتا ہے۔ پس جس طرح اس دن کے معجزوں پر یہ نبوت عائد ہوتی ہے اسی طرح اور دنوں کے معجزوں پر بھی عائد ہوسکتی ہے ۔ مانکہ یہ دن بڑی تکان اور ماندگی کا دن تھا۔ تو بھی جس طرح اس دن ہوا سی طرح ہر روز ان دکھوں اور بیماریوں کا بوجھ اس پر گرتا تھا۔ جو اپنے شفا بخش  ہاتھ سے دور کرتا تھا ۔ ٹرنچ صاحب اس قانون کا ذکر کرتے ہیں جو مدد پہنچانے میں کام آتا ہے ۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ "تم ایک دوسرے کا بار اٹھاؤ"(انجیل شریف خط  گلتیوں 6باب 2آیت )اگر تم کسی کا بوجھ اٹھانا چاہتے ہو تو ضرور ہے کہ تم خود اس کے نیچے  آؤ۔اور جس غم کوتسلی سے مالا مال کرنا چاہتے ہو ۔ ضرور ہے کہ خود اس کو محسوس کرو۔ یہ قانون جو ہمدردی او ررحم کے کاموں میں ظاہر ہوتا ہے جنابِ مسیح میں کامل درجہ کو پہنچ جاتا ہے ۔ نہ صرف بیماروں کو شفا بخشنے میں بلکہ اس کی تمام زندگی میں اس قانون کا کمال جلوہ گر ہے۔ پس جب اس نے فانی زندگی کو اپنے اوپر لے لیا تو اس نے سب بیماریوں کو بھی اپنے اوپر اٹھالیا۔  

نصیحتیں اور مفید اشارے

1۔جس نے ہمارے لئے سب کچھ کیاہم اس کے لئے کیا کریں؟وہ تو اب شخصی طور پر موجود نہیں ہے کہ ہم حضرت پطرس کی ساس کی طرح اس کی خدمت (یعنی بدنی خدمت)کریں۔ تو بھی ہم اس کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اوروں کو اس کے پاس لاسکتے ہیں۔(حضرت یوحنا 1باب 41آیت)ہم اس کے بیمار اور مصیبت زدہ بندوں کی مدد کرسکتے ہیں۔(حضرت متی 25باب 40آیت )ہم عام طور پر اس کے احکام کی پیروی کرکے اپنی محبت کو ظاہر کرسکتے ہیں(حضرت یوحنا 14باب 15آیت)

2۔حضرت پطرس کا نمونہ ۔ وہ صاحب خانہ شخص تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ خانگی تکلیفیں  اس کو اس کے مذهبی کام سے نہیں روکتی ہیں۔ چنانچہ وہ مسیح کے ساتھ عبادت خانہ کوجاتا ہے ۔وہ اپنی خانگی تکلیف کو اپنے مذهب میں جگہ دیتا ہے ۔چنانچہ جناب مسیح سے اپنی مریض ساس کے لئے دعا کرتا ہے وہ اسے شفابخشے۔

3۔جنابِ مسیح کا دن کس طرح صرف ہوا کرتا تھا۔ دعا کی تازگی سے شروع ہوتا تھا محنت کی برکتوں کے ساتھ ختم ہوتا تھا۔

4۔جناب مسیح مچھوئے کا گھر بادشاہوں کے محل کی نسبت زیادہ پسند کرتے ہیں۔

5۔مسیحی مذہب اور خانگی زندگی میں اتحاد ہے اتفاقی نہیں۔

6۔دیکھو مسیح کیسا کام کرنے والا تھا۔ رات ہوتی جاتی ہے ۔ وہ تھک جاتا ہے مگر پھر بھی لوگوں کو اپنی شفا بخش خدمت سے فائدہ پہنچارہا ہے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (17096)
Comment function is not open
English Blog