en-USur-PK
  |  
17

بدی کیا ہے؟

posted on
بدی کیا ہے؟

What is Evil?

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

بدی کیا ہے؟

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز        

                   

          گذشتہ لیکچر میں اس امر کاذکر ہوا کہ امور نا مناسبہ بدی ہیں اور یہ کہ مناسبت  وغیر مناسبت  کے دریافت  کرنے کے لئے  عقل کافی نہیں ہے لیکن عقل والہام ہر دور سے مناسبت وغیر مناسبت خوب معلوم ہوسکتی ہے۔

          گناہ یا بدی کی تعریف  یوحنا رسول نے یوں کی ہے کہ " گناہ شرع کی مخالفت ہے۔"( انجیل شریف خط اول حضرت یوحنا رکوع 3 آیت 4)۔

          شرع کا لفظ شامل ہے شرع مکتوب فی القلوب پر وشرع مکتوب فی الکتاب  پر کیونکہ  خلاصہ وتفصیل دونوں ایک بات ہے ۔

          شرع  وہ راہ ہے جس کو خدا نے آدمی کے لئے تجویز کی ہے اسی پر ضمیر دلالت کرتی ہے اور بائبل اسی پر آدمیوں کو چلانا چاہتی ہے  پس آدمی کے لئے جو راہ خدا کی طرف سے مقرر ہے اس سے انحراف  گناہ یا بدی ہے۔

          شیطان نے جب مسیح کی انسانیت کا  امتحان کیا تو یہی چاہتا تھا کہ اس کو انسانیت  کی راہوں سے ہٹادے انسانیت  کی راہوں میں سے  ایک یہ ہے کہ اس کا بھروسہ  کامل خدا پر ہو نہ ذرائع پر لیکن شیطان نے پتھر رکھ کر کہا کہ ان کو روٹی بنا اور کیوں بھوکارہتا ہے ؟ مسیح نے جواب دیاکہ انسان خدا کے حکم سے جیتا ہے نہ روٹی سے ۔

          شیطان نے کہا کہ کنگرے سے نیچے  گر کر  خدا کو آزما ۔مسیح نے کہا  میں بے ایمان نہیں ہوں کہ خدا کو آزماؤں ۔ اور خدا کا وعدہ حفاظت  انسان کے راہ راست پر چلنے میں ہے نہ اس کی بے راہی میں انسان کی راہ یہ ہے کہ  سیڑھی سے اترے نہ یہ کہ کنگرے پر سے کودتا پھرے۔

          شیطان نے کہا کہ مجھے سجدہ کراور سب دنیا کی شان وشوکت  لے ۔ مسیح نے کہا انسان کا فرض یہ ہے کہ  خدا کوسجدہ کرے نہ کسی مخلوق کو اس لئے دور ہو اے ملعون ۔

          پس جب آدمی اپنی راہ کو جو خدا کی طرف سے اس کے لئے مقرر ہے چھوڑتا ہے تو یہی بدی ہے ۔

          آدم کے لئے  خدا نے ایک راہ مقرر کی تھی کہ ہر درخت  سے کھانا مگر اس درخت سے نہ کھانا  اس نے اپنی راہ کو چھوڑا تب پہلا گنہگار ہوا ۔ کوئی کہتا ہے کہ  مرضی الہیٰ کے خلاف کام کرنا گناہ ہے۔ مگر جو راہیں  خدا نے ہمارے لئے مقرر کی ہیں انہیں کا انحراف خدا کی مرضی کا بھی انحراف ہے ۔

          جو راہیں  خدا نے آدمی کے لئے مجلاً  اس کی ضمیر  میں اور مفصلاً  بائبل  میں دکھلائی ہیں ان پر آدمی چل کر حقوق الله اور حقوق العباد کو پورا کرتا ہے توسلامتی کی ر اہ پر اس کے قدم رہتے ہیں اور و ہ ان راہوں سے خدا کے نزدیک پہنچ سکتا ہے۔

          لیکن جب ہم خدا کے حق برباد کرتے ہیں اور ہمسایوں کے حق میں خیانت  کرتے ہیں تو بدی کرتے ہیں کیونکہ اپنی راہوں کو چھوڑ دینا ہی بدی ہے۔

نتیجہ

          خدا کی شرع اور انسان کی ضمیر دونوں ہمیشہ برابر ہیں اور انسان کی بنائی ہوئی شرع ہرگز ضمیر  کی تحریکات کے موافق نہیں ہوتی ہے  لہذ ا جوکوئی گناہ سے بچنا چاہتا ہے تو چاہیے  کہ اس شرع کے انحراف سے بچے جو ضمیر  کی موافق ہوتی ہے نہ صرف اس شرع کے انحراف سے جسے ضمیر ہی جھٹلاتی ہے۔

          خدا کا کلام بتلاتا ہے اور انسان بالبداہت دیکھتاہے کہ کل انسان گناہ میں پھنسے ہوئے ہیں کوئی  اس کاجل کی کوٹھڑی یعنی دنیا میں سوا سیدنا مسیح کے بے گناہ نظر نہیں آتاکچھ  نہ کچھ داغ سب کو لگا ہوا ہے  اکتسابی اور موروثی گناہ میں سب پھنسے ہوئے ہیں سب نے اپنی راہوں  کو چھوڑا ہے اور سب نے خدا کی شریعت کو توڑا ہے ۔

          خدا کے کلام میں گناہ کو کوڑھ سے تشبہیہ دی گئی ہے اور اس  کی وجہ یہ ہے کہ کوڑھ کامرض اندر سے شروع ہوتاہے گودے اور ہڈی سے پھر جسم پر نمایاں ہوتاہے اسی طرح گناہ دل سے جو مبداء خیالات  ہے اور پختہ ہوکر فعل آمد قول میں ظاہر ہوتا ہے۔

          کوڑھ لاعلاج مرض ہے ۔ اسی طرح گناہ کاعلاج بشر سے نا ممکن ہے ۔ کوڑھ ایک متعدی بیماری ہے گناہ بھی سخت متعدی ہے فوراً  ایک کو دوسرے سے لگتا ہے۔

          کوڑھ ایسی نفرتی بیماری ہے کہ لوگ ایسے بیماروں کو نکال دیتےہیں  گناہ اس سے زيادہ تر نفرتی  چیز ہے  کہ خدا کو اور خدا کے بندوں کو اس سے سخت  نفرت ہوتی ہے۔

          کوڑھ نسل میں جاری ہوجاتا ہے جیسے گناہ آج تک آدم کی اولاد  میں چلاآتا ہے ۔ پولوس رسول گناہ کو موت کا ڈنگ یا نیش بتلاتا ہے جیسے سانپ یا بچھو کا ڈنگ ہوتا ہے ویسے ہی موت کا ڈنگ گناہ ہے  جسے نے گناہ کیا وہ جانے کہ موت نے مجھے ڈنگ مارا ہے اگر میں جلدی علاج نہ کروں تو مرجاؤں گا۔

          لوگ بڑے مزے کےساتھ گناہ پر گناہ کیا کرتے ہیں کیونکہ گناہ میں جسمانی لذت ملتی ہے اور نہ صرف جاہل بزاری لوگ یہ کام کرتے ہیں بلکہ  بعض ایسے لو بھی خوب گناہ کرتے ہیں جو آپ کو شریعت کا معلم یا صاحب علم اور ممتاز شخص جانتے ہیں۔ رشوت لیتے ہیں۔ بد منصوبے باندھتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ بدنظری کرتے ہیں ناچ رنگ میں شریک ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ پرائے کا حق کھا جاتے ہیں وغیرہ۔

          اس دنیا کو گناہ اور بدکاروں نے پوری دوزخ کی ہم شکل بنادیا ہے ۔ انہیں کچھ پرواہ نہیں کہ  خدا کی حق تلفی ہوتی ہے یا بندوں کی لیکن وہ اپنی نفس پرستی میں مگن رہتے ہیں اپنے انجام نہیں سوچتے ہیں اور دنیامیں مشغول رہتے ہیں۔

دوسرا حصہ

گناہ کے نتائج

(۱) گناہ خدا کی غیرت کو ابھارتا ہے اورا س کے غضب کو برانگیختہ کرتا ہے۔

          چنانچہ ازمنہ سابقہ کی تواریخ اس پر گواہ ہیں کہ کس قدرقومیں اور سلطنتیں  اور خاندان اسی گناہ کے سبب برباد ہوئے ۔

          اور اس زمانہ میں ہم بھی دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے ۔ جہاں بدی ہے وہاں بربادی کھڑی ہے ہمارے دیکھتے دیکھتے کتنے خاندان  کیا سے کیا ہوگئے ۔ دیکھو بہادر شاہ کے قلعہ میں کیا ہوتا تھا اور اب کیا ہورہا ہے ۔ لکھنئو کے بادشاہ کے گھر میں کیا ہوتا تھا اور اب کیا حال ہے ؟ ان شہروں میں اور ان گھروں میں جہاں بدی ہوتی ہے خدا کا غضب  نازل ہوتا ہے اور وہ اپنی مراد کو نہیں پہنچتے  بلکہ جلدی  برباد ہوجاتے ہیں  بلکہ ان کی اولاد  پر بھی ان کے باپ دادوں کی بدیوں کی سزا نازل ہوتی ہے ۔

(۲)خدا کی آسمانی برکات  کا نزول گناہ کے سبب سے بند ہوجاتا ہے  ۔چنانچہ یرمیاہ نبی کہتاہے کہ  تمہاری  بدکاریوں نے یہ چیزیں  تم سے پھرائیں ہاں تمہاری خطاکاریوں نے ان اچھی چیزوں کو تم سے باز رکھا (بائبل مقدس صحیفہ حضرت یرمیاہ رکوع 5 آیت 25)۔ اور بعض اوقات  برکات بالکل منقطع ہوجاتی ہیں اور قحط سالی مری اور تنگی  اور بے برکتی کا ظہور ہوتا ہے اور یوں خدا تعالیٰ آدمیوں کو ان کے گناہوں پر متنبہ کرتا ہے۔

          یہ تو عام گناہوں کی تاثیر  کاذکر ہے جو لوگوں پر ہوتی ہے ۔ مگر خاص گناہوں  کے سبب سے خاص لوگوں کی خانہ خرابیاں اور دل کی سختیاں  ظاہر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے  برکات رک جاتی ہیں اور آقا کی نظر رحمت ماتحتوں کی شرارت کے سبب سے پھر جاتی ہے ۔

(۳)ایک اور نتیجہ گناہوں کا جس کو تھوڑی سی فکر کرنے کے بعد جلد دریافت کرسکتے ہیں  دل کی بے چینی  ہے ۔بدکار آدمی کیسا ہی بیوقوف اور شرارت میں مگن کیوں نہ رہتا ہو تب بھی اس کے گناہ اس کی ضمیر کو کاٹا کرتے ہیں۔ شاید وہ طرح طرح  کی تاویلیں  کرکے آپ کو معذرت ثابت کرے لیکن یہ موت کا نیش  اس کی ضمیر  میں ٹیسیں پیدا کردیتا ہے جب وہ اپنی بدمستی اور شرارت  سے ذرا بھی  بازآتا ہے  فوراً گناہ اس کے دل میں چبھک مارتا ہے  اور اس کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔

(۴)الہام جو عقل کا معلم اور استاد ہے وہ زیادہ تر گناہ کے نادیدنی  ناقص نتیجہ دکھلاتا ہے اور جب کہ ہمیں اس کے دو تین جانکا ہ نتیجوں کا علم ہے تو ہم الہام کے بتلائے ہوئے برے نتائج  کا کیونکر  یقین نہ کریں۔

          گناہ کاپہلا نتیجہ جو الہام بتلاتا ہے  یہ کہ ساری  مصیبتیں کا منہ نہ دیکھتے اگر کوئی  اپنی ضمیر سے پوچھے کہ خدا جو ساری خوبیوں کا سرچشمہ ہے اور جس کی محبت اور الفت  اس بد حالت  میں بھی  ہم پر خوب روشن ہے تو اس نے یہ دنیاوی  مصائب  اور موت ہم پر کیوں نازل کی ہے تو اس کا سبب  بجز  اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم سے وہ ناراض ہے اور ناراضگی  کا کوئی اور سبب نہیں ہوسکتا ہے بجز گناہ کے جس کی وجہ سے بطور سزا کے ہم پر یہ آفتیں  نازل ہوتی ہیں۔

(۵)الہام ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ محدود گناہ کا عذاب غیر محدود ہے اور اس کا سبب یہ بتلاتاہے کہ گناہ خدا کے سامنے مثل قرضہ کے ہے جب تک کوڑی کوڑی ادا نہ کرو گے سزا میں مبتلا رہو گے لیکن اس کا ادا کرنا انسان کی طاقت سے خارج ہے اس لئے منصف صادق کی کامل  عدالت ابد تک  سزا میں  رکھیگی  پس سزا کی ابدیت  بھی ہماری وجہ سے  ہے کہ ہم قرضہ ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ پس اس ابدی عذاب سے چھوٹ  جانے کی امید تو ہے مگر ہم سے ممکن نہیں اگر زمین  وآسمان میں کوئی  اور شفیق  رحیم غنی  سخی ہو  اور ہمارا قرضہ ادا کرکے مہربانی سے ہمیں  چھڑائے  تو ہم چھوڑ سکتے ہیں۔

(۶)الہام ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ  اسی زندگی میں اس کا تدرک ہوسکتا ہے کیونکہ تخت عدالت کے سامنے  جانے سے پہلے ہم اپنے مدعی کے ساتھ صلح کرسکتے ہیں  لیکن جب عدالت میں حاضر ہوجائیں تب ممکن نہیں کیونکہ عدالت  میں رحم اور سفارش اور کسی کی مددکار گر نہیں ہوسکتی ہے ۔ ہاں عدالت  سے پہلے ہی صلح کرکے اپنا نام مجرموں کی فہرست میں سے  کٹواڈالنا چاہیے کہ ہمارا حساب ہی نہ لیا جائے  جب حساب لیا گیا اور حکم سزا کاجاری ہوگیا تب امید خلاصی کی نہیں رہی۔

          پس اے بھائیو: اگرچہ گناہ نہایت  برا ہے اور اس کا عذاب بہت ہی سخت ہے تو بھی اس سے مخلصی  کی امید اس زندگی میں ہے اس وقت  کو غنیمت  جانو اور ذرا سو چو جب تک  کہ خدا مل سکتا ہے  ملنے کی کوشش کروٹٹولو اور ڈھونڈو اور سب باتوں کو پرکھو دیکھو کوئی بچانے والا تمہیں نظر آتا ہے یا نہیں ۔

نصیحت

          بھائیو عربی زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ مَن عرَف َ  نفسہ فَقدَ  عرَف َ ربہ َ۔ یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو بھی پہچانا اگر چہ اس مثل کے معنی لوگوں نے طرح طرح بتائے ہیں لیکن اس کا حقیقی  مطلب یہ ہے کہ  آدمی کو چاہیے کہ پہلے اپنی حالت پر سوچے کہ میں کون ہوں اور کس حالت میں ہوں جب وہ اپنی حالت پر کچھ واقف ہو جاتا ہے تو اس میں استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ اپنے رب کو بھی پہچانے  او ریہ اس طرح  سے ہوتا ہے کہ  ہماری اصل  تو نہایت  خوب ہے کیونکہ  ہمارے درمیان  ایک روح ہے جو عالم بالا کا ایک جوہر ہے مگر نہایت تباہ حالی میں  ہمیں  گناہ لذیذ معلوم ہوتا ہے اور بد خواہشوں کے ہم مغلوب ہوگئے ہیں اور گناہ کا عذاب ہمیں گھیرے ہوئے ہے جس سے خلاصی  پانا ہماری  طاقت سے  نا ممکن ہے تب ہماری  نظر خدا کی طرف اٹھتی ہے اور ہمارے کان اس کی آواز کو سنتے ہیں ۔ جب داؤد پیغمبر پر اس کے گناہ ظاہر ہوئے  تو وہ یوں بولا ۔" بے شمار برائیوں نے مجھے گھیر لیا میرے گناہوں نے مجھے پکڑا ایسا کہ میں آنکھ اوپر نہیں کرسکتا وہ میرے  سر کے بالوں سے شمار میں زیادہ ہیں سو میں نے دل چھوڑ دیا۔ (زبور شریف رکوع 40 آیت 12)۔

          بھائیوں جب تک ہم گناہ کو ایک ہلکی بات جانتے ہیں اور اس سے گھبراتے ہیں تو نا ممکن ہے کہ ہم خدا کو جانیں  اور سچائی  کو پہچانیں اور مخلصی کے مستحق ہوں۔ یہ پہلی منزل ہے جو خدا شناس لوگوں میں پیدا ہوتی ہے  کہ وہ آپ کو گنہگار جانتے ہیں  اور ہم جانتے ہیں کہ یہ خدا کے فضل کا بڑا نشان ہے کہ آدمی آپ کو سخت  گناہ کی حالت میں پہچان لے اس وقت  خدا کا ہاتھ اس کی امداد کے لئے آگے بڑھیگا۔

          یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ حق شناسی کے مدی ہوکر  بھی حق کو نہیں  پہچانتے کیونکہ وہ اپنی حالت سے ناواقف ہیں جب ہم اپنی بیماری  سے ناواقف  ہیں تو اس کے مناسب  علاج کب کرسکتے ہیں۔ لیکن جب بیماری  کی تشخیص  ہوجائے کہ کیا ہے اور کیسی ہے تب ہم مناسب  دوا تجویز کرکے یقین کرسکتے ہیں کہ اس سے فائدہ  ہوگا اور اگر فائدہ  نہ ہو تب دوسری دو ا تلاش کرینگے جس دوا سے فائدہ ہوگا ہم اس کو اپنی بیماری  کے مناسب جانیں گے ۔

          پس بھائیو یہی گناہ کی بیماری کل بنی آدم میں ہے جو مذہب اس کا علاج کرسکے وہی خدا کا سچا دین ہے اسی کو جلدی قبول کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہلاک ہوجاؤ۔ فقط۔

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (17438)
Comment function is not open
English Blog