en-USur-PK
  |  
13

گدرینیوں کے ملک میں دو شخصوں کو جن پر دیو چڑھے ہوئے تھے شفا بخشنا

posted on
گدرینیوں کے ملک میں دو شخصوں کو جن پر  دیو چڑھے ہوئے تھے شفا بخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

5-Miracle   

Jesus Restores Two Demon-Possessed Men

Matthew 8:28-34

 

گدرینیوں کے ملک میں دو شخصوں کو جن پر

 دیو چڑھے ہوئے تھے شفا بخشنا

۵ ۔معجزہ

(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 8باب آیت 28 تا 34 )

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

اگر پچھلے معجزہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب مسیح فطرت کی طاقتوں پر مسلط ہیں تو اس معجزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بدروحوں پر بھی کامل اختیار رکھتے ہیں۔یہ معجزہ پچھلے معجزے  سے بھی زیادہ عجیب اور پُر قدرت معجزہ ہے ۔ اس میں بھی ہمارے آقا اور مالک جناب مسیح اپنے تیئں سلامتی کا شہزادہ ثابت کرتے ہیں۔ یہا ں وہ اس تلاطم اور طوفان اور فساد کو فروکرتے ہیں جو انسان کے اندر بدی کے بانی کے سبب سے پیدا ہوتا ہے۔

آیت نمبر ۲۸۔جب وہ (جناب مسیح ) اس پار گدرینیوں کے ملک میں پہنچے ۔

پرانے ترجمہ میں "گریسنیوں " آیا ہے اور حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں اسے " گراسینیوں "کا ملک کہا ہے لیکن پرانے نسخوں سے ثابت ہوتا ہے کہ "گدرینیوں" کا لفظ حضرت متی میں اور "گراسینیوں" کا حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں صحیح ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کہ یہ فرق کس طرح پیدا ہوا۔ ایک مسیحی عالم ٹامسن صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے اس ملک کی سیر کی تو جھیل کے مشرقی کنارے پر اور قریباً اس کے وسط میں ایک گاؤں دیکھا جسکے ارد گرد بہت سی قبریں موجود تھیں۔ اور اس کے پاس ایک کڑا بھی واقع تھا۔ اس گاؤں کا نام گراسا ہے۔ اوراس کا وقوع بیعنہ  ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس معجزہ  کے بیان سے ثابت ہوتاہے ایک شہر اور بھی اسی نام کا تھا۔ مگر وہ قریباً تیس میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ پس یہ گاؤں گراسا نامی جو اب معلوم ہوا ہے وہی جگہ ہے جس سے "گراسینیوں"کا لفظ نکلا ہے۔ لیکن پھر یہ سوال برپا ہوتا ہے کہ گدرینیوں کا لفظ کس طرح پیدا ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شہر گدارا بھی تھا وہ اس جھیل سے جنوب مشرق کی طرف چند میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ اور چونکہ یہ دستور تھاکہ بڑے شہر کے ار د گرد کے دیہات اس سے علاقہ رکھا کرتے تھے پس ہم قیاس کرتے ہیں او ریہ قیاس نا درست نہیں کہ اگرگراسا گدارا سےعلاقہ رکھتا تھا اور اس سے یہ نتیجہ  نکل سکتا ہے کہ اس علاقہ کے باشندے کبھی گراسینی اور کبھی گدرینی کہلاتے ہونگے۔ اب ایک سوال حل طلب یہ ہے کہ گرگاسیوین کا لفظ  کس طرح داخل ہوگیا۔ اس کی نسبت بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ شاید یہ نام جرجاسییوں سے جس کی ایک شکل گرگاسیوں بھی ہوسکتی ہے پیدا ہوا (توریت  شریف کتاب پیدائش 10باب  آیت 16وکتاب استشنا ء 7باب آیت 1 اور یشوع 3باب آیت 10 )یعنی لکھتے وقت کاتبوں نے یو ں ہی سمجھا اور یو نہی نقل کردیا ۔مگر آریجن صاحب کہتے ہیں کہ گرگاسہ نامی ایک شہر بھی جھیل کے قریب آباد تھا لیکن ان کا یہ قول بعض علماء کی دانست میں قبول کرنے کے لائق نہیں کیونکہ وہ "گرگاسینیوں" کے نام کو جغرافیہ  کے اعتبار سے ترجیح دیتے ہیں نہ کسی کریٹیکل وجہ سہے۔ اور پھر وہ خود ہی بیان کرتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں ایسے نسخے موجود تھے جن میں گدرینیوں کا لفظ داخل تھا۔ (لینگی ) پھر بعض علماء کا خیال ہے کہ گرگاسینیوں ۔گراسینیوں  کا دوسرا لفظ ہے۔

تو دو آدمی جن میں بدروحیں تھیں قبروں سے نکل کر انہیں (جناب مسیح ) کو ملے ۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں صرف ایک شخص کا ذکر ہے۔ بزرگ کری ساسٹم اور اگسٹن  کے خیال کے مطابق ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ توجہ کے لائق تھا۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا زیادہ تفصیل سے اس تاریخ کو رقم کرتے ہیں۔ اور صرف اسی شخص  کا ذکر کرتے ہیں کہ جس کی حالت دوسرے شخص  کی حالت سے زیادہ ردی اور بھری ہوئی تھی  تاکہ ان کابیان زیادہ زندہ اور پُر اثر معلوم ہو۔ ایک امریکن کامنٹری میں اس دقت کو رفع کرنے کے لئے مثال دی ہوئی ہے ۔ مفسر بیان  کرتا ہے کہ 1824ء میں ایک شخص جس کا نام Lafayette تھا۔ ملک امریکہ  میں سیر کے لئے آیا ۔اس کے ساتھ ا سکا بیٹا بھی تھا۔ اور ہر جگہ لوگوں نے بڑی  شان وتپاک سے ان کی آؤ بھگت کی اب بعض مورخ اس واقعہ کو فقط Lafayette کی زندگی کا ایک  مشہور واقعہ گردان سکتے ہیں۔ پر اگر لکھنے والے اپنی تحریر میں اس سیر کو اور اس اعزاز  اور امتیاز کو جس سے لوگوں نے انہیں قبول کیا دو شخصوں سے منسوب کریں یعنی Lafayetteاور اس کے بیٹے سے تو کیا اس میں کسی طرح کا جھوٹ یا خلاف سمجھا جائے گا؟

دو آدمی جن میں بدروحیں تھیں۔اس کی نسبت بڑا غو ر طلب سوال یہ ہے کہ آیا وہ بدرحیں جن کا ذکر انجیل شریف میں آتا ہے ۔۔درحقیقت موجود تھیں۔ یا نہیں؟ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ حال حقیقی اور تواریخی ہے۔ اور اسکے ثبوت میں یہ دلیلیں پیش کی جاتی  ہیں۔

1۔اناجیل کے مصنف ہمیشہ ان کو حقیقی واقعات سمجھتے ہیں۔ او رہمیشہ ایسے ہی پیرایہ میں پیش کرتے ہی۔

2۔انجیل شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب مسیح خود بھی ان واقعات کو حقیقی سمجھتے ہیں۔ بلکہ بدروحوں سے مخاطب ہوکر کلام کرتے ہیں۔ اور ان میں اور ان اشخاص میں جن کے اندر بدرحوں موجود تھیں امتیاز کرتے ہیں (انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 1باب آیت 25) اور نہ صرف عوام کے سامنے ایسا کرتے ہیں بلکہ تخلیہ  میں بھی یعنی اپنے شاگردوں کے محدود دائرے کے اندر بھی ایسا ہی کرتے ہیں چنانچہ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے سوائے دعا کے نہیں نکلتے ہیں"(انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 9باب آیت 29)۔

3۔علاوہ بریں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح ان کے وجود کی حقیقت پر دیگر صداقتوں اور دلیلوں کو قائم کرتے ہیں۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضر ت لوقا 10باب آیت 17 تا 20 )  مثلا ً جب آپ کے شاگرد اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ بدرحیں ہماری سنتی ہیں۔ توآپ  اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ "میں نے شیطان کو آسمان سے بھی بجلی کی طرح گرتے دیکھا " اب سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے یہاں شاگردوں کے بدروحوں  کو نکالنے کے کام کو شیطان کی قدرت کے تنزل سے مربوط کیا ہے۔

یہ لوگ جن میں بدرحیں تھیں فوق العادت علم کے ساتھ کلام کرتے اور جناب مسیح کو خدا کا بیٹا (نعوذ بالله جسمانی نہیں بلکہ روحانی ) تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ آپ نے ان کو گو اہی دینے سے روکا۔ شاید اس لئے کہ آپ دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملےکہ آپ میں اور بدروحوں کے سردار میں کسی طرح کا رابطہ اور تعلق ہے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے مخالفوں نے بعد میں یہ الزام آپ پر لگایا بھی حالانکہ کوئی وجہ معقول ان کے پاس ایسے کرنے کے لئے نہ تھی۔ ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 13باب 24آیت ) پر گو آپ نے ان کی گواہی کو روکا۔ تاہم ان کی گواہی سے ایسا علم ظاہر ہوتا ہے جو انسانی علم سے بڑ ھ کر ہے ۔اس بات پر ذیل کے اعتراض کئے گئے ہیں۔

1۔ کہ بدروحوں کے گرفتار وں کی علامتیں بہت درجہ تک بعض جسمی اور دماغی امراض کی علامتوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔مثلاً مرگی اور مالیخولیا کی علامتوں سے ۔ لہذا ان لوگوں میں بدروحیں نہ تھیں۔ بلکہ وہ صرف بیماری کے پنجہ میں گرفتار تھے۔ ہم اسکا یہ جواب دیتے ہیں۔ کہ یہ ناممکن نہیں کہ بدروحو ں کے دخول کے بعد اس قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئی ہوں۔ او ریہ بھی ممکن ہے کہ لوگ پہلے ان امراض میں گرفتار ہوئے ہوں۔ اور پھر انہیں عارضوں نے ان کو اس قابل بنادیا کہ بدروحوں کے دخل اور دماغی بیماریوں کی موجودگی میں برابر امتیاز کیا جاتا ہے۔ (دیکھئے انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 4باب آیت 24 و 8باب آیت 10 ،حضرت مرقس1باب آیت 34) اور غالباً  یہی سبب ہے کہ لفظ "شفا بخشنا " ان کے بارے میں استعمال کیا گیا ہے اور اس رابطہ کے سبب سے جو بدروحوں کے داخل ہونے اور امراض کے پہلے یا بعد میں پیدا ہونے میں پایا جاتا تھا یہی محاورہ رائج ہوا۔تم میں بدروح ہے ( انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 7باب آیت 20وباب 8آیت 52،وباب 10 آیت 30) جس کا یہ مطلب ہے کہ تم پاگل ہوگئے ہو۔ پس وہ جن میں بدروحیں تھی۔ درحقیقت دماغی قوتوں کے پایہ سے گرے ہوئے تھے۔ خواہ ہم اس فتور کو بدروحوں کے دخول کا نتیجہ مانیں۔ یا یہ تسلیم کریں کہ اس فتور کے سبب سے  بدروحیں داخل ہوئیں۔ مگر حضرت یوحنا 10باب آیت 20 میں ان دونوں میں صریح فرق کیاگیا ہے۔ "اور بہتوں نے ان میں سے کہا ۔کیا اس کے ساتھ ایک دیو ہے۔ اور وہ سڑی ہے " پس کوئی ضرورت نہیں کہ  نوشتوں کے صاف بیان سے خلاف ورزی اختیار کی جائے۔ ماسوااس کے اس معجزہ  میں بدروحوں کا سورؤں کے غول میں جانا بجائے خود ایک اور دلیل ہے ۔جو ہمارے خیال کو ثابت کرتی ہے ۔ یعنی اگر بدروحوں کا وجود نہ تھا تو کس طرح آنا ً فاناً میں ان کے دخول کے بعد سورؤں کا ویسا ہی حال ہوگیا جیساکہ ان اشخاص کا تھا جن پر دیو چڑھے ہوئے تھے۔ اور کس طرح یہ تبدیلی ان پر حادث ہوئی جس حال کی بدروحیں کچھ بھی نہ تھیں؟

2۔لوگ اکثر یہ خیال پیش کیا کرتے ہیں کہ بدروحیں تو کوئی حقیقی وجود نہ رکھتی تھیں۔ اور نہ جناب مسیح اور آپ کے شاگرد ہی ان کے وجود کے قائل تھے ۔ مگر چونکہ یہ خیال اس زمانہ کے لوگوں کے درمیان رائج تھا۔ سو جناب مسیح نے بھی روکنا نہ چاہا ۔ بلکہ اسے مروج رہنے دیا۔ تاکہ ان کو ان امراض سے شفا دے سکے ۔ کیونکہ  اگرآپ ان کے عقیدوں کی تردید کرتے تو شاید وہ آپ کے پاس نہ آتے اور نہ آپ کے شفا بخش علاج سے مستفیض ہوتے۔ پس اگر مسیح روح کو یہ کہتے ہیں کہ باہر نکل آ۔ تو وہ صرف مریض کے خیال اور وہم کے مطابق بولتے ہیں تاکہ وہ جلد شفا پائے ۔پر ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اس زمانہ کے لوگوں کی غلطی تھی تو بڑی بھاری غلطی تھی اور ہو نہیں سکتا کہ مسیح غلطی کو مروج رہنے دیتے جبکہ آپ کا کلام یہ تھا کہ اس قسم کی بطالتوں کو دو ر کریں۔ او رنہ ہم اس بات کو طبی بنا پر قبول کرسکتے ہیں کیونکہ اہل طبابت بھی یہ نہیں بتاتے کہ پاگلوں کی شفا کے لئے یہ ضروری امر ہے وہ یہ ہے کہ انکی توجہ دوسری طرف لگائی جائے ۔ علاوہ بریں ایسے دعوؤں سے مسیح کے کلام کی صداقت  کو بڑی زک پہنچتی ہے۔ہمارے رائے میں جناب مسیح کی طرف سے جس کا کلام سچائی ہے اور جو خود سچائی ہے ایسا بے ضرر فریب بھی ناقابل تسلیم ہے۔

3۔او رپھر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کا کیا سبب ہے کہ یہ اظہار ات صرف اس وقت سر زد نہیں ہوتے اور ا ن کے وقوع کی نفی کو کامل یقین کے ساتھ پیش نہ کرنا معترض کے اعتراض کو ضعیف کردیتاہے ۔ پر ہم اس بات کی بھی دلیل رکھتے ہیں کہ کیوں وہ اس وقت سرزد ہوئے اور کیوں باآسانی معلوم کئے گئے سبب یہ تھا کہ ازلی کلمے نے اس وقت اپنے تئیں  جسم میں ظاہر کیا تھا۔ سو اسوقت وہ لڑائی جو خدا اور شیطان میں برابر چلی آئی ہے زیادہ روشن ہوگئی تھی تاکہ یہ بات خود ثابت ہوجائے کہ جو بدروحیں خدا کے برخلاف صف آراء ہیں وہ اس کے مقابلے میں ہرگز قائم نہیں رہ سکتی ہیں ( مقابلہ کریں انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 4باب میں شیطان کا جسم میں نمودار ہونا )

4۔پھر ایک یہ اعتراض ہے کہ یہ معاملہ فی نفسہ ایسا دقیق ہے کہ اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ یہ بات ایسی ہے کہ اس کا سمجھنا مشکل ہے ۔پرکیا ہم اور مشکل باتوں کو تسلیم نہیں کرتے ؟مثلاً ہم مسیح کی شخصیت میں انسانی اور الہیٰ ذاتوں کے میل کو اور روح پاک کے انسانی روح پر اثر کرنے کو اور دماغ اور جسم کے ربط کو نہیں مانتے ؟یہ تمام باتیں مشکل ہیں۔ تاہم یہ سب سچی حقیقتیں ہیں۔

پس بدروحوں کی قدرت کے اظہار جو انجیل میں مندرج ہیں۔ حقائق نفس الامری ہیں ۔ اور اگر ہم ان کو تاریخی حقیقتیں  تسلیم کریں تو وہ نہ صرف ہمارے لئے عجیب واقعات ہونگے بلکہ نصیحت خیز واقعات ہونگے۔ او رہم محسوس کریں گے کہ مسیح اور آپ کے شاگردوں کے وسیلہ بدروحوں کا نکالا جانا انجیل اور نجات دہندہ کی نیکی اور خوبی پر دلالت کرتا ہے۔ اور ان کے منجانب الله ہونے کا ایک عمدہ ثبوت ہے  ۔ اور اس بات کی بھی پرُ تاثیر دلیل ہے کہ ہمارے خداوند مسیح نے شیطان پر فتح پائی ۔ماسوا اس کے کہ اس شرح سے نوشتوں کی کلام کی سادگی میں جو عام وخاص کے فائدے کے لئے تحریر ہیں فرق نہیں آتا ۔

۵۔حضرت یوحنا ان اظہاروں کا ذکر کیوں نہیں کرتے ؟یہ سچ ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات کو درج نہیں کرتے لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 7باب 20آیت و8باب 48 تا 2آیت ، و 10باب 20آیت ) پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ جناب مسیح کی خدمت کے بہت تھوڑے واقعات کو اپنی انجیل میں درج کرتا ہے۔ اور جو درج کرتا ہے وہ بھی ایسے ہیں جن سے مسیح کو یہودیوں کے سامنے کسی عجیب تقریر کا موقعہ ملا۔

ان بدروحوں کا ذکر پرانے عہدنامے اور اپاکرفا اور مشنا (یہودیوں کی احادیث کی کتا ب) میں نہیں آیا ہے۔ لیکن یوسیفیس ان کا ذکر کرتا ہے۔

یہ خیال کرناکہ یہ لوگ جن پر دیوچڑھے ہوئے تھے ضرور شریر ہونگے ۔ اور ان کی شرارت کے سبب سے شیطان نے ان پر غلبہ پایا۔ او رانہیں اپنےبس میں لایا صحیح نہیں ہے گو اس بات کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ گنہگار تھے ۔ انکار اس بات کا ہے کہ ان کی بدکاری کے سبب سے شیطان ان میں آیا ۔ پس بجائے اس کے ہم یہ خیال کریں کہ وہ اوروں کی نسبت زیادہ بدکار تھے۔ ہم یہ کہیں کہ وہ زیادہ بد نصیب تھے اور مصیبت زدہ تھے ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو سب سے بدکار اور شیطان کے کارندے اور غلام بنی آدم میں گذرے ہیں مثلا ً جھوٹے نبی اور مخالفان مسیح ان کی نسبت کبھی ایسی عبارت استعمال نہیں کی گئی جس طرح ان دیوزدوں کے بارے میں کی گئی ہے مثلاً ہم پڑھتے ہیں کہ یہوداہ کے دل میں شیطان سمایا(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 13باب 27آیت ) مگر یہوداہ کا اس بدروح (شیطان) کے بس میں آنا اور قسم کا تھا۔ (ٹرنچ صاحب ) ۔

اور پھر اس کے متعلق یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ ان بدروحوں کے مارے ہوئے لوگوں میں اپنے دکھ کا ادراک اور احساس پایا جاتا ہے۔جسے انہوں نے اپنی مرضی سے اختیار نہیں کیا۔ وہ دوسرے کے قابو میں ہیں۔ اور دکھ کی پہچان اور اس سے آزاد ہونے کی خواہش وغیرہ ایسی باتیں ہیں جن کے سبب سے وہ مسیح کی شفا بخش طاقت سے بہر ہ اندوز ہوئے۔ اس کے بغیر وہ شیاطین کی طرح جو بدی میں کامل ہیں اور جن میں کوئی ایسا وصف  نہیں پایا جاتا جس کی بنا پر فضل اپنا کام ان میں کرسکے کبھی مسیح سے فائدہ نہ اٹھاتے ۔ پس جس طرح اوروں کی حالت میں ویسا ہی ان کی حالت میں بھی ایمان شفا کی شرط تھا۔ پس ان میں اعلی ٰ زندگی کی ایک چنگارہ باقی تھی جو اس وقت جبکہ  وہ مسیح سے نہ ملے تھے بجھنے پر تھا۔ مگر جب مسیح سے ملاقات ہوئی تو اسے زندگی کے مالک نے اپنی رحمت کی ہوا سے پھر جلتے ہوئے شعلہ میں تبدیل کردیا۔

قبروں سے نکل کر انہیں (مسیح ) کوملے۔

یا تو وہ قبروں میں لوگوں کے خوف کے مارے چلے گئے تھے۔ اور یا ان کی دیوانگی کے اشتداد نے انہیں وہاں پہنچایادیا تھا۔ یہ جگہیں جو غاروں اور چٹانوں میں پائی جاتی تھیں اور قبرستان کا کام دیتی تھیں شائد ان دیوانہ لوگوں کے مذاق او رحال سے زیادہ مناسبت رکھتی تھیں۔ سو وہ یہاں خوش تھے۔ گو کئی یہودی صحت اور دماغ کی درستی کی حالت میں قبرستان میں رہنا پسند نہ کرتا ۔ کیونکہ رسمی شریعت کے مطابق وہ ایسی جگہ رہنے سے ناپاک ہوجاتا ۔ اس قسم کی چٹانی قبریں اب بھی ان پہاڑ وں میں بکثرت ملتی ہیں  جو جھیل کے جنوبی حصہ کے مشرق  میں واقع  ہیں حضرت لوقا کہتے ہیں " اس شہر کا ایک مرد " جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ بدروح کا شکار اس شہر کا باشندہ تھا۔

وہ ایسے تند مزاج تھے کہ کوئی اس راستہ سے گذر نہیں سکتا تھا۔

یعنی اس راستہ سے جو قبروں کے نذدیک سےگزرتا تھا۔ یہ دونو مصیبت زدہ اپنے معمول کے مطابق مسیح اور آپ کے ساتھیوں پر لپکے ۔جس طرح اور لوگوں پر حملہ کیا کرتے تھے حضرت مرقس اور حضرت لوقا ان میں سے ایک خاص شخص کے حالات اضافہ کرتے ہیں۔ حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ وہ مدت سے دیو کے بس میں تھا۔ اور نہ کپڑا پہنتا تھا اور نہ گھر میں رہتا تھا۔ حضرت مرقس کہتے ہیں کہ "اب کوئی اسے زنجیروں سے بھی نہیں باند ھ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے باند ھا گیا تھا۔ لیکن اس زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں  کے ٹکڑے ٹکڑے کئے تھے۔ او رکوئی اسے قابو میں نہیں لا سکتا تھا۔ او روہ ہمیشہ رات دن قبروں اور پہاڑوں میں چلا تا۔ او راپنے تیئں پتھروں سے زخمی کرتا تھا" اس سارے بیان سے اس کی ساری حالت بد کی غائت  ظاہر ہوتی ہے۔

چلا کر کہا ۔ اے خدا کے بیٹے ہمیں آپ سے کیا کام آپ ا س لئے یہاں آئے ہیں کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالیں۔

بعض نسخوں میں خدا کے بیٹے کی جگہ مسیح آیا ہے۔ مگر یہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرقس اور حضرت لوقا میں مسیح لکھا دیکھ کر یہاں بھی کاتبوں نے مسیح لکھ دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ آدمی وہی بات کہتے ہیں کہ جو بدروحیں سوچتی اور خیال کرتی ہیں پر ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ بدروحیں کس درجہ تک سوچتی اور سمجھتی تھیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے "خدا کے بیٹے " کے مطلب کو پورے پورے طور پر نہیں سمجھا تھا۔ جیسا کہ ان کے سردار شیطان نے نہیں سمجھا تھا۔ (مقابلہ کریں 4باب 3آیت )حضرت مرقس 3باب 11آیت سے معلوم ہوتاہے کہ گویا وہ ہمیشہ آپ کو اس نام سے پکارا کرتی تھیں۔ لیکن ممکن ہے کہ حضرت مرقس ہمارے مولا کی خدمت کے کسی خاص حصہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ہمیں آپ سے کیا کام ۔یہ پھر ویسا ہی محاورہ ہے جیساکہ مے کے معجزہ میں آیا تھا۔ یونانی میں ہے "ہم کو کیا اور آپ کو کیا " مطلب یہ ہے کہ ہم میں اور آپ میں کسی طرح کی شرکت نہیں ہے۔ آیا ان الفاظ میں دھمکی ہوتی ہے۔ یا نہیں ہوتی ہے ۔اس سوال کا جواب طریق بیان اور لہجہ پر موقوف ہے۔ اور نیز اس تعلق پر جو فریقین کے درمیان پایا جاتا ہے۔

کیا آپ اس لئے آئے ہیں کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالیں۔وقت سے مراد موقعہ اور موسم ہے ان بدروحو ں کا یہ خیا ل تھاکہ ایک نہائت سخت عذاب کسی اگلے زمانہ میں ہم پر حادث ہونے والا ہے ۔ سووہ ڈرتی تھیں کہ کہیں خدا کا بیٹا ہم کو وہ شدید عذاب نہ دے ۔ ہم حضرت یہوداہ کے خط جو انجیل شریف میں درج ہیں یہ سیکھتے ہیں کہ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ روز عظیم کو عدالت ہوگی جس کے بعد شیطان اور اس کے خادم رات دن ہمیشہ عذاب میں رہیں گے ۔(انجیل شریف کتاب مکاشفہ 20باب 20آیت ) اور نقصان پہچانے کی تمام قدرت ان سے چھینی جائے گی۔ تمام نوشتے اس سے مطابقت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بتاتے ہیں کہ فرشتوں کی عدالت ہونے والی ہے (انجیل شریف خط اول اہل کرنتھیوں 6باب آیت 3) ان دیوزدہ لوگوں کی روش غور طلب ہے ۔ کیسی مختلف حالتیں اس سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پہلے وہ بڑی تندی سے مسیح اور آپ کے شاگردوں پر لپکتے ہیں اور جب نذدیک آتے ہیں تو گر کر آپ کو سجدہ کرتے ہیں (انجیل شریف بہ مطابق حضرت مرقس 5باب 6آیت)کبھی وہ دہشت اور نفرت سے بھرا ہوا کلام کرتے ہیں۔ اور کبھی اپنی تکلیف اور عذاب کو محسوس کرتے ہیں اور کبھی اس ہولناک ہستی کی طرف سے بولتے ہیں جو ان پر مسلط ہے۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتا ہے (حضرت مرقس 5باب 8آیت اور حضرت لوقا 8باب 29آیت )۔ کہ جناب مسیح نے حکم کیا تھاکہ بدروح نکل جائے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ کہنے سے نہیں نکلی ۔ اس کا کیا جواب ہے ؟اس کا یہ جواب ہے کہ اگر وہ چاہتے تو اسے فورا ًنکال دیتے۔ مگر دیگر تمام حالتوں کے موجود رہنے ممکن تھا کہ اس شخص کو نقصان پہنچتا (مقابلہ کریں حضرت مرقس 9باب 24آیت ) اس دانا حکیم نے جیسا مناسب سمجھا ویسا ہی اپنی حکمت قدرت اور محبت کے مطابق کیا۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسیح نے نام پوچھا کیوں؟بعض کا خیال ہے کہ اس لئے کہ نجات کی کثرت اور بہتات ظاہر ہو او رنجارت دینے والے کی عظمت معلوم ہو۔ کہ کیسا بڑا دشمن تھا جس پر اس نے فتح پائی۔ٹرنچ صاحب کا خیال ہے کہ شائد یہ سوال اس شخص سے جس پرو دیو چڑھا ہوا تھا کیاگیا کہ وہ سوال سن کر اپنے حافظہ کی تازگی حاصل کرے ۔اور اس کی شخصیت کی پہچان اس کے دل میں پیدا ہو ۔ اور وہ مانے کہ میں وہ شخص ہوں جو پہلے بدروحوں کی قدرت سے آزاد تھا اور اب بھی اس قدر ان کے اختیار میں نہیں کہ رہا نہ ہو سکوں۔ گو یا یہ سوال اس لئے کیا گیا تھا کہ اس کا علاج جلد ہوجائے اور وہ فٹ نوٹ میں somnambulism سوتے ہوئے چلنے پھرنے کی بیماری ) کی مثال دیتے ہیں۔ اس مرض میں جب اور ادویات کا ر گر نہیں ہوتی ہیں تو بسا اوقات نام لے کر پکارنے سے رات کو چلنے والے مریض کو خود شناسی کی حالت میں واپس لاتے ہیں۔ پر اس سوال کا جواب بدروح دیتی ہے۔

اس کا نام تمن (لشکر ) تھا ۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ گویا نہ صرف ایک طرف سے بلکہ اس مصیبت زدہ شخص پرہر جانب سے حملہ ہوتا تھا۔ کبھی ایک مخالف طاقت سے ستایا  جاتا تھا اور کبھی دوسری سے پس اس کی بربادی کا مل تھی۔ ایک لشکر اس پر حکمرانی کرتا تھا۔

آیت ۳۰۔ان سے کچھ دور بہت سے سورؤں کاغول چررہا تھا۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا کہتے ہیں کہ "وہاں" چررہا تھا۔ حضرت لوقا یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ پہاڑ پر چررہا تھا مگر حضرت متی کہتے ہیں کہ "بہت دور " یہ محاورہ ایسا ہےجس کے صحیح معنی تحقیق کرنا وقت کے موجودہ حالات پر منحصر ہوتاہے یعنی جیسی حالت ہوتی ہے اس کے مطابق نذدیک یا دور کے معنے لئے جاتے ہیں۔ مثلا ً ایک کمرہ میں دوشخص بیٹھے باتیں کررہے ہیں مگر چونکہ اسی کمرے میں ایک شخص بھی موجود ہے ۔ لہذا ان میں سے ایک دوسرے سے کہتا ہے کہ ذرا آہستہ باتیں کرو ورنہ وہ سن لے گا۔ وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ نہیں وہ بہت دور  ہے۔ حالانکہ وہ تینوں ایک ہی کمرہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پس حضرت متی کے یہ الفاظ حضرت لوقا اور حضرت مرقس کی مخالفت نہیں کرتے ۔ توبھی وہ سور اتنے نذدیک بھی نہ تھے کہ ان دیوانوں کی آواز کو سن کر یا ان کی حرکات کو دیکھ کر کود پڑتے ۔ پس یہ کہنا کہ ان سورؤں میں کوئی روح خارج سے داخل نہیں ہوئی تھی لہذا وہ یا تو اس سبب سے بھاگ گئے کہ یہ دیوانے ان کے درمیان جاگھسے تھے یا اسلئے کہ ان کی دیوانگی کے نعرے سن کر انہوں نے خوف کھایا درست نہیں ایسے اوہام فاسدہ کے لئے عبارت صفائی اور سادگی کوئی جگہ نہیں چھوڑتی۔

بڑا غول ۔حضرت مرقس جو مفصل بیان کے لئے یکتا سے بتاتے ہیں کہ وہ شمار میں قریباً دو ہزار تھے۔

آیت ۳۱۔پس بدروحوں نے ان کی (مسیح ) منت کرکے کہا کہ اگر آپ ہم کو نکالتے ہیں تو ہمیں سوروؤ ں کے غول میں بھیجدیں۔

حضرت متی اس جگہ یہ نہیں کہتے کہ وہ بدورحیں دو تھیں۔اور کہ ان دونوں شخصوں میں ایک ایک پائی جاتی تھی۔ وہ تعداد کی نسبت کچھ نہیں کہتے ۔ لیکن حضرت مرقس اور حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ اس شخص میں جس کاذکر وہ کرتےہیں "تمن" یعنی لشکر تھا۔ رومیوں کا تمن یا لشکر ان ایام میں چھ ہزار مردوں سے مشتمل ہوتا تھا۔

دوسرے حواری یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان بدروحوں نے ان کی منت کی کہ انہیں اتھاگڑھے میں نہ گرا ئے۔ اتھاہ گڑھے سے مراد دوزخ ہے۔ (انجیل شریف کتاب مکاشفہ 9باب آیت 11،باب 20 آیت 3) بدورحیں بھی نفع اور نقصان کو سمجھتی ہیں جس طرح کہ آدمی سمجھتا ہے ۔(لینگی )۔

آیت ۳۲۔ جناب مسیح نے ان سے فرمایا کہ جاؤ وہ نکل کر سورؤں کے اندر چلی گئیں۔ اور دیکھو سارا غول کڑاڑے پر سے جھپٹ کر جھیل میں جا پڑا۔ اورپانی میں ڈوب مرا۔

 مسیح نے ان سے فرمایا جاؤاکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اس قدر مفید اور کارآمد مال کو برباد کرنا مناسب تھا؟اس کا جواب اکثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سوریہودیوں کے تھے مگر شریعت کی رو سے یہودیوں کو جائز نہ تھا کہ سور رکھیں اور چونکہ ان کو فقہیوں نے منع کیا تھا ۔ مگر وہ شنوا نہ ہوئے۔ اس لئے ان کے سور ضبط کئے گئے۔ لیکن اس سوال کا جواب کہ مسیح نے کیوں ان کو سورؤں میں گھسنے کی اجازت دی۔ ایک اور سوال کے وسیلہ اچھی طرح دیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح نے کیو ں انہیں آدمیوں کے اندر گھسنے کی اجازت دی ؟یاد رہے کہ مسیح اپنی شاہانہ طاقت اور اختیار کے مطابق سب کام کرتے ہیں۔ اور جو سبق ہم ان سے سیکھتے ہیں وہ ایسا ضروری اور عظیم سبق ہے کہ اس کے سکھانے کے لئے اتنے مال کو تصدق کرنا غیر واجب نہ تھا۔ انسان سور سے زیادہ بزرگ اور زیادہ  بیش قیمت ہے۔ پس اس کی جان بچانے کے لئے سورؤں کو برباد کرنا نقصان کا باعث  نہ تھا۔ علاوہ بریں یہی واقع اس شخص کے لئے جس نے رہائی پائی تھی او رمعنوں میں مفید تھا ۔ سورؤں کی تباہی میں اس نے دیکھاکہ اب جہنم کی طاقتیں مجھے چھوڑ گئی ہیں۔ پس یہی واقع اس کے لئے اس کی آزادی کی گویا ظاہری گواہی اور ثبوت تھا۔ اور پھر نہ صرف اس کے لئے بلکہ تمام ملک کے لئے اس کا شفا پانا مفید تھا اور اگر مالکوں کے مال کے نقصان کا خیال کیا جائے۔ تو اس کا کیا جواب ہے کہ ہزاروں مریاں اور طوفان مواشی اور کھیتوں کو برباد کرجاتے ہیں۔

ان یہودیوں کے نقصان کو دیکھ کر آج کل بھی بہت لوگ بے چین ہورہے ہیں۔ اور جناب مسیح پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے غریب یہودیوں کا مفت میں اتنا نقصان کیا۔ ان میں سے ایک مرزا غلام احمد قادیانی ہے ۔ان کی مشکلات کو مسٹر اکبر مسیح صاحب نے اچھی طرح حل کردیا ہے جن کے مضامین ترقی میں چپھتے رہے ہیں۔

پھر یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیوں ان بدروحوں نے سورؤں کے غول میں گھستے ہی ان کو برباد کر ڈلا؟شائد انہوں نے اپنے کینے اور غصے سے ایسا کیاکہ سور وں کے مالک اپنا نقصان دیکھ کر مسیح سے مخالفت کریں اور انہیں اپنے ملک سے نکال دیں۔ جیساکہ انہوں نے بعد میں کیا۔ سور جو حیوان تھے اور پانی میں جانے سے بہت ڈرتے تھے۔ بدرحوں کے سبب سے پانی میں کود پڑے۔ اس سے پھر یہی نتیجہ نکلتاہےکہ بدروحوں کا آدمیوں میں داخل ہونا ایک حقیقی امر تھا نہ کہ مالیخولیا یا مرگی۔اس جگہ ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو نہایت غور اور تشریح طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا روحانی زندگی حیوانی زندگی پر کچھ اثر کرسکتی ہے ؟خیال تو ایسا گذرتا ہے کہ حیوانی زندگی  روحانی زندگی کو قبول کرنے کی سمائی نہیں رکھتی ہے کیونکہ اس کے حرکات کے اظہار کے لئے ضروری اعضا نہیں رکھتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روحانی اور اخلاقی مخلوقات اور حیوانات مطلق میں بڑ ا فرق ہوتا ہے ۔تاہم یہ مشکل ایسی نہیں کہ جو حل نہ ہوسکے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا وہ یہ مانتے ہیں کہ ادنیٰ درجہ کی بادشاہت یعنی حیوانات کی بادشاہت ایسے طور پر محدود  ہے کہ اعلی ٰ درجہ کی بادشاہت کی تاثیروں سے موثر نہیں ہوسکتی پر گہری  تحقیقات  اس خیال  کے برخلاف ہے۔ اب جب یہ کہا جاتا ہے کہ روحانی زندگی کا اثر  حیوانی زندگی پر پڑسکتا ہے تو یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دونوں طبقوں کی حد فاصل ٹوٹ جاتی ہے، بلکہ یہ کہ نیکی  اور بدی دوقسم کی حالتوں کا اثر حیوانی طبقات  پر پڑتا ہے نوشتے ا سکی تصدیق کرتے ہیں کہ (توریت شریف کتاب ِپیدائش  3باب آیت 17 اور انجیل شریف  خطِ اہل رمیوں 8باب 18 تا 20)۔

آیت ۳۴،۳۳۔اور دیکھو سارا شہر مسیح سے ملنے آیااور آپ کو دیکھ کر منت کی کہ ان کی سرحدوں سے باہر تشریف لے جائیں۔

دیکھو۔کیونکہ شہر کا نکل آنا بھی ایک تعجب خیز واقعہ تھا۔ سارا شہر۔ ایک عام محاورہ ہے جو ہم ہمیشہ استعمال کرتے ہیں اگر چہ کسی قدر مبالغہ کی بو دیتا ہے ۔حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ چرانے والوں نے جاکر نہ صرف بستی کے لوگوں کو بلکہ شہر کی نواحی میں خبردی  چنانچہ  شہر اور آس پاس کے ملک کے لوگ بھی اس کے پاس آئے۔ حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ دیہات میں بھی خبر دی گئی۔اور سب ان کے پاس آئے۔اور یہ دونوں حواری بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کو جس پر بدروحیں تھیں۔"کپڑا پہنے اور ہوشیاراور مسیح کے پاؤں کے پاس بیٹھا دیکھا۔ اور ڈر گئے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیوں ان لوگوں نے مسیح سے درخواست کی کہ ان کو چھوڑ کر چلا جائے۔ شاید کچھ تو ا س لئے کہ اس وقت ان کے مال کا نقصان ہوگیا تھا۔ اور وہ ڈرتے تھے کہ اگر یہ شخص یہاں رہا تو شائد اور نقصان بھی ہوگا۔ اور کچھ اس لئے کہ اس کی الہٰی قدرت کا اظہار دیکھ کر اور اپنی گنہگاری کو پہچان کر انہوں نے کچھ اسی قسم کا خیال کیا جس طرح حضرت پطرس نے کیا تھا۔ یعنی انہوں نے اپنے کو اس پاک شخص کی قربت میں رہنے کے قابل نہ پایا۔ لیکن حضرت پطرس میں اور ان میں فرق یہ تھا کہ ان کو زیادہ تر خیال نقصان کا تھا ۔ وہ سوچتے تھے کہ اگر ایسا شخص ہمارے پاس رہا تو ہمارا نقصان ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ بڑے حلم سے جناب مسیح نے ان کی سرحدوں کو چھوڑا ۔ تاہم وہ ان کے لئے  اپنے پیچھے ایک عمدہ اور لائق استاد چھوڑگئے۔ یعنی وہی شخص  جس کو آپ نے شفا بخشی تھی۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جو بدروحوں سے آزاد کیا گیا تھا چاہتا تھا کہ مسیح کے ساتھ رہے مگر جناب مسیح نے اسے فرمایا "اپنے گھر جا ؤاور پروردگار نے جو بڑے کام تمہارے ساتھ کئے اور جو رحم تم پر کیا اس کا بیان لوگوں سے کر و۔ اور وہ گیا اور ان بڑے کاموں کو مسیح نے اس کےساتھ  کئے تھے تمام شہر میں سنایا یہ شخص اس کی قدرت اور رحمت کا محکم ستون تھا جو ان کے درمیان قائم کیا گیا ۔ حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ دکپلس میں اس نے مسیح کا نام سنایا ۔ مسیح نے اس جگہ کو پھر کچھ عرصے کے بعد دیکھا۔ (انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 15باب 29آیت )۔

نصیحیتں اور مفید اشارے

1۔جس طرح شیطان اور بدورحیں مسیح کی پہلی آمد کے وقت چلائے اسی طرح ان کی دوسری آمد کے وقت چلائیں گے (انجیل شریف کتابِ مکاشفہ 12باب 12آیت )۔

2۔حیوان اور انسان اور بدروحیں سب مسیح کے زیر فرمان ہیں۔

3۔شیطانی طبعیت کا خاصہ ہے کہ جب وہ اوروں کو عذاب دینے سے روکی جاتی ہے تو اسے اپنا عذاب سمجھتی ہے ۔ کیا ہم اوروں کو ستاتے ہیں۔ یا ان کہ دکھ سے خوش ہوتےہیں؟پیار سے ناظر خوش ہونا تو بجائے خود اس سے غافل رہنا بھی معیوب ہے۔

4۔روح کے نقصان کی مانند اور کوئی نقصان نہیں ہے۔ پس روح خواہ کیسی قیمت سے بچائی جائے ہم اسے گراں نہ سمجھیں۔

5۔ہم یہاں سرگرمی کے ساتھ دعا مانگنے کی ایک مثال پاتے ہیں۔ تو بھی ہم اسے دعا نہیں کہہ سکتے ۔ اور پھرہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز مانگی گئی وہ بھی دی گئی ۔ مگر باوجود اس درخواست اور اجابت کے ہم اس مانگنے کو وہ دعا نہیں کہہ سکتے ہیں۔ جسے خداوند پسند اور قبول فرماتا ہے۔ پس ہم ہوشیار رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری دعائیں محض خود غرضی کی خواہشوں سے پیدا ہوں۔ اور ایک دیندار اور پر محبت اور پر بھروسہ دل سے نہ نکلیں۔ آیت 31۔

6۔اکثر خدا کے بندوں کی دعا کا جواب نہیں ملتا ۔ پر یہ انکار ان کے لئے برکت کا باعث ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ بارہا شیطان ( کتاب ِمقدس  صحیفہ حضرت ایوب 1باب 11آیت )۔اور اس کے خادموں کی درخواستوں کا جواب ان کی مرضی کے مطابق دیا جاتا ہے ۔ مگر یہ منظوری ان کے نقصان اور زیان کا باعث ہوتی ہے ۔

7۔جسے مسیح نے بچایا ضرور ہے کہ وہ ان کے پاؤں کے پاس بیٹھے جو اس کے بچائے ہوئے ہیں اور وہ کچھ نہیں چاہتے ۔ سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ رہیں۔ دیکھو اس شخص نے جو بدروح سے چھڑایا گیا ایسا ہی کیا۔

8۔جناب مسیح کے بندے کئی خیالات کے سبب سے اس کے پاس رہتے ہیں۔ نمبر 1 وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں پھر اپنی پہلی بری حالت میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اس کی قربت میں رہائی  ہے۔ نمبر 2شکر گذاری کے سبب سے نمبر 3اس کی خوبی کے جلال اور جمال کے سبب سے ۔

10۔لیکن کئی موقعہ ایسے بھی ہوتے ہیں جب اس کی صحبت چھوڑ کر میدان جنگ میں اترنا پڑتا ہے۔ دعا اور کام دونوں باتیں مسیحی زندگی کے لئے ضروری عنصر ہیں اس شخص کو حکم ملا کہ وہ اپنے وطن کے لوگوں کو خدا کے کاموں سے مطلع کرے ۔

11۔بے دین دینداروں کی صحبت پسند نہیں کرتے وہ یہی چاہتے ہیں کہ وہ چلے جائیں ۔

12۔مسیح یہاں ایک مناد چھوڑتے ہیں اور وہ وہی ہے جسے انہو ں نے شفا بخشی تھی۔

13۔جو کوئی دنیا کی چیزوں کوپیار کرتا ہے مسیح بہت دیر تک اس کے دل میں نہیں رہیں گے نہ صرف گدارا سے بلکہ دلوں سے بھی جاتے رہیں گے ۔

14۔ خدا کی مہربانی صرف اس کی بظاہری مہربانیوں کے کاموں میں نہیں ہوتی بلکہ نقصانوں میں بھی ہوتی ہے۔

15۔خدا نا شکروں کے پاس بھی منا د بھیجتا ہے ۔

16۔مختلف موقعے اور صورتیں جن میں مسیح رد کئے گئے۔ (1)ناصرت سے حسد کی وجہ سے (2) گدارا کی وجہ خود غرضی اورکینہ ڈر تھا۔ (3) سامریہ سے وجہ مجذوبیت (5) گلیل سے وجہ مجذوبیت او رحکمت عملی ۔(5)یروشلم سے وجہ سخت دلی۔

17۔حضرت لوقابتاتے ہیں کہ مسیح نے اس کو جو بدروح سے رہا ہوا تھا یہ حکم کیاکہ جا اور خدا نے جو بڑے کام تجھ سے کئے ہیں۔ " سنا " اور پھرلکھا ہے کہ "وہ گیا " اور ان بڑے کاموں کو جو مسیح نے اس کے ساتھ کئے تھے تمام شہر میں سنایا " خدا کے بڑے کام مسیح کے بڑے کام ہیں۔ خدا میں اور مسیح میں کچھ فرق نہیں۔ 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, معجزات المسیح | Tags: | Comments (0) | View Count: (16433)
Comment function is not open
English Blog