en-USur-PK
  |  
06

جہاد

posted on
جہاد

جہاد

                        بہر صورت  قرآن شریف میں حضرت محمد کے پیروکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ اُس کے دین کیلئے دنیا کو مغلوب کریں۔ اوراس میں یہ بات مشتمل ہے کہ اگر ضرورت پڑے توفتح کیلئے لشکر کا بھی استعمال کریں۔شدت پسند اس مذہبی فرمان کی تابعداری کرتے ہوئے نہ صرف غیر مسلموں کو نقصان پہنچاتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اُن مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جو ذی فہم آزاد خیالات کے مالک ہوتے ہیں۔اس لئے موجودہ خبریں اور مضمون اس بات کا ثبوت ہیں وہ قرآن شریف اور سنت کی کتنی تابعداری کرتے ہیں۔ اوریہی وطیرہ نبیِ کریم حضرت محمد کی زندگی کے آخری ایام میں بھی رہااوریہی حکم وہ اپنے پیروکاروں دے کر رخصت ہوئے۔

          سورہ توبہ آیت ۲۹ میں یوں ارشاد ہوہے۔

قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

ترجمہ

          جواہلِ کتاب میں سے خدا پرایمان نہیں لاتے اورنہ روزِآخرت پر یقین رکھتے ہیں اورنہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جوخدا اوراُس کے رسول نےحرام کی ہیں اور نہ دینِ حق کو قبول کرتےہیں ان سے جنگ کرو  یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔(ترجمہ مولانا فتح محمد خان جالندھری)

          سورہ توبہ کی آیت ۲۹ کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سورہ مسلمانوں کو لڑنے کیلئے اُکساتی ہے۔

·        اول ۔ مشرک اوردہریوں سےلڑوں جواللہ وتبارک تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔

·        دوم۔ اُن سے لڑو جو حضرت محمد کی دی ہوئی شریعت کی مزاحمت کرتے ہیں۔

·        سوم۔ تمام غیر مسلم جوحضرت محمد کےنئے مذہب کی پیروی نہیں کرتے۔

·        چہارم۔ اہلِ کتاب سےیعنی یہود اور عیسائی اُن سے اُس وقت تک لڑو جب تک وہ ۔

1.     مطیع نہ  ہوجائیں۔

2.     جزیدہ ادا کریں ۔

3.      ذلیل ہوں۔

جہاددوسرے اسلامی عقائد کو قبول کرنے سے زیادہ باور ہے۔ مسلمانوں کا یہ یقین اورایمان ہے کہ قرآن شریف کی یہ تعلیم ہے کہ جہاد میں لشکری طاقت بھی شامل ہے۔

          سورہ انفال کی آیت ۶۰ میں یوں ارشاد ہواہے۔

                        وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ

ترجمہ

          " جہاں تک ہوسکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کےتیار رکھنے سے اُن کے مقابلے کے لئے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اورتمہارے دشمنوں اوراُن کے سوا اورلوگوں پرجن کو تم نہیں جانتے اورخدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔اورتم جوکچھ راہِ خدا میں خرچ کروگے اس کا ثواب  تم کو پورا پورا دیا جائے گا اورتمہارا ذر ا نقصان نہ کیا جائیگا"۔(ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری)۔

          بے شک جہاد ایک خطرناک عظم ہے اور اگرچہ لوگ اسے پسند نہ کریں تب بھی قرآن شریف اُنہیں لڑنے پر اُکساتی ہے۔

          سورہ بقرہ آیت ۲۱۶میں یوں ارشاد ہواہے۔

                        كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

        ترجمہ

          مسلمانو! تم پر خدا کے رستے میں لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار توہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بُری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو۔ اورعجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور اُن باتوں کو خدا ہی بہتر جانتاہے اورتم نہیں جانتے۔(ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری)۔

          یہاں ہم اپنے قارئین کی خدمت صحیح البخاری کے انگریزی ترجمہ کے دیباچہ کا ترجمہ اردو میں پیش کرتے ہیں۔

          " صحیح البخاری کے دیباچہ میں یوں مرقوم ہے" سعودی عرب کی مکہ کی ایک مسجد کہ شیخ عبداللہ بن محمد بن حامدہمیں فرماتےہیں" لڑنا" نا پسندیدہ بات ہے کیونکہ اس سے تباہی ،نقصان اورجنگ کا خوف ہوتاہے۔ یہ صاف عیاں ہے کہ اگر جہاد صرف اس لئے کیا جاتاہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے توپھر اُس میں کوئی تباہی نہ ہوتی"۔

          گوکہ" لڑنا "فطرتاً ناپسندیدہ چیز ہے کیونکہ اس سے قتل وغارت ہوتی ہے،لوگوں کو غلام بنایا جاتاہے،  لوگ زخمی ہوتے ہیں ۔ مال واسباب کو لوٹا جاتاہے ملک کی تباہی ہوتی ہے خوف وحراس پھیلتاہے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑا اجر رکھا ہوا اِس اچھے کام کیلئے جس کے بارے میں انسانی روح قیاس بھی نہیں کرسکتی"۔

          جہادکرنے کا سب سے بڑا ثواب یہ ہے کہ اِس سے اَزلی نجات ملنے کا یقین ہوتاہے۔ دوسرے اعمالِ صالح یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے سے اَزلی فرحت تو ملتی ہے مگر جنت کی یقین دہانی نہیں ہوتی۔ قرآن شریف یہ وضع کرتی ہے کہ یہ باعثِ برکت والی بات ہے کہ مساجد کی رونق وآبادی کو برقرار رکھیں، نماز کے پابندہوں، زکوات دیں اوراللہ سے ڈریں، حاجیوں کو پانی پلائیں ۔ بہر صورت یہ تمام اعمالِ صالح  اللہ تعالیٰ کے مصمم مقصدِ جہاد کے یکساں نہیں ہیں۔وہ لوگ جوایمان لائے ،ہجرت کی اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن کا بہت بڑا رتبہ ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ وتبارک تعالیٰ کی طرف سے نجات، بڑی خوشی اورایسے باغات پائیں جہاں اُن کیلئے ہمیشہ نعمتیں ہی نعمتیں ہونگی اوروہ ہمیشہ کیلئے اللہ وتبارک تعالیٰ کے ساتھ رہینگے۔

          سورہ توبہ کی آیت ۱۸ سے ۲۲میں ارشاد ہواہے۔

                         إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلاَّ اللّهَ فَعَسَى أُوْلَـئِكَ أَن يَكُونُواْ مِنَ الْمُهْتَدِينَ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّهِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

                        ترجمہ

          " خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتےہیں جوخدا پر اور روزِ قیامت پر ایمان لاتے اورنماز پڑھتے اورزکوات دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سی نہیں ڈرتے یہی لوگ اُمید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں داخل ہوں ۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اورمسجد محترم یعنی خانہ کعبہ کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے۔ جوخدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتاہے اورخدا کی راہ میں جہاد کرتاہے، یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اورخدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اورجولوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑگئے اورخدا کی راہ میں مال اورجان سے جہاد کرتے رہے خدا کے ہاں اُن کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اوروہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ اُن کا پروردگار اُن کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری دیتاہے جن میں اُن کیلئے  نعمت ہائے جاودانی ہے۔ اور وہ اُن میں ابدالاآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کے ہاں بڑا صلہ تیار ہے۔

          مسلمان قرآن شریف کے ساتھ بہت فرمانبردار ہیں۔ اُس کے اُس حکم کی بجاآوری کرتے ہیں جسے "جہاد" کہا جاتاہے۔ وہ اِس بلوائے کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حکم کی اطاعت سے مسلمانوں کے معاشرتی اور سیاسی کردار پر اثرپڑتاہے۔ اوراِس طرح قرآن وسنت کے فرمان کی پیروی ہوتی ہے۔ تاہم یہ جائے تعجب نہیں کہ سچا دینِ اسلام امن وسلامتی کا دین نہیں ہوسکتا۔ مگر چھٹے ارکان یعنی جہاد کی پیروی کرنا لازم وملزوم ہے۔ اوریہ جنت کی راہ میں بہت بلندوبالا اور متعین راستہ ہے۔

          پیشن گوئی 

          منجئی عالمین سیدنا عیسیٰ نے یہ پیشن گوئی تھی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دینی لوگ سیدنا عیسیٰ سلام وعلینہ کے پیروکاروں کوموت کے گھاٹ اُتاریں گے اوریہ سوچیں کہ ہم ذاتِ باری تعالیٰ کی رضا کو پورا کررہے ہیں۔اسلامی جہاد اورشریعت الحاد، سیدنا عیسیٰ مسیح کے اُن مبارک الفاظوں کی تکمیل ہے۔

          انجیل شریف میں سیدنا عیسیٰ یوں فرماتے ہیں۔

          "  لوگ تم کو عبادتخانوں  سے خارج کردیں گے بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی  تم کو قتل کرئے گا  وہ گمان کرے گا کہ میں پروردگار کی خدمت کرتا ہوں"۔(انجیل شریف  بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع ۱۶ آیت ۲)۔

          مسلمان ہونے کی فضیلت

          قرآن شریف وضع طورپر بیان کرتاہے کہ مسلمانوں کو تمام نوع انسانی پر فضیلت حاصل ہے۔ قرآن شریف میں مرقوم ہے " تم بہترین اُمت ہو" قرآن شریف متواتر یہ بیان کرتاہے کہ مسلمان جانتے ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔تاہم مسلمان فطرتی طورپر یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ برتاؤ کے لائق ہیں کیونکہ پروردگارِ عالم نے یہ اعلان کیاہے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں بہتراور زيادہ علم رکھنے والے ہیں۔ اُن کا یہ یقین ہے کہ اُن کی فضیلت لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔ مزید برآں قرآن شریف یہ دعویٰ کرتاہے کہ اہل کتاب کے لوگ یعنی(یہود اور عیسائي) گمراہ اور منحرف ہیں۔ اسلام نقطہ نظر سے یہ بات منطقی ہے کہ مسلمان جودوسری دنیا کی اُمتوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور علم رکھتے ہیں وہ اہلِ کتاب پر بالا فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ قرآن شریف کے مطابق وہ گمراہ اورمنحرف ہیں۔

          چنانچہ سورہ آلِ عمران کی آیت ۱۱۰ میں یوں مرقوم ہے۔

                        كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ

                        ترجمہ

          مومنو!جتنی اُمتیں یعنی قومیں لوگوں میں پیدا ہوئیں تم اُن سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اورخدا پر ایمان رکھتے ہو اوراگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تواُن کیلئے بہت اچھا ہوتا ۔ ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن تھوڑے اور اکثر نافرمان"۔

        دینی تکبر

          بہر صورت یہ بہت ہی دانشمندانہ غوروفکرکی بات ہے جوکہ  سیدنا عیسیٰ مسیح نے اسلامی ہٹ دھرمی اور تکبر کا تخمینہ کرتے ہوئےکہی، وہ فرماتے ہیں۔

          سیدنا عیسیٰ نے بعض ایسے لوگوں کو جو اپنے آپ کو تو متقی اور پرہیزگار  سمجھتے تھے لیکن دوسروں کو ناچیز جانتے تھے یہ تمثیل سنائی: دو آدمی دعا کرنے کے لئے بیت اللہ میں گئے۔ایک دینی عالم تھا اور دوسرا محصول لینے والا ۔  دینی عالم  نے کھڑے ہوکر  دل ہی دل میں یوں دعا کی : اے پروردگار ِ عالم میں آپ کا شکرکرتا ہوں کہ میں دوسرے آدمیوں کی طر ح نہیں ہوں جو لٹیرے ،ظالم اور زناکار ہیں اور اس محصول لینے والی کی  مانند  بھی نہیں ہوں۔  میں ہفتہ میں دوبار روزہ رکھتا ہوں اور اپنی ساری آمدنی پر عُشر ادا کرتا ہوں ۔ لیکن  اس محصول لینے والے نے جو دور کھڑا ہوا تھا اتنابھی نہ چاہا کہ  آسمان کی طرف  نظر اٹھائے بلکہ  چھاتی  پیٹ پیٹ  کر کہا :پروردگار مجھ گنہگار پر رحم کریں۔  میں تم سے کہتا ہوں یہ آدمی اس دوسرے سے خدا کی نظر میں  زیادہ مقبول ہوکر اپنے گھر گیا کیونک  جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کیا جائے گا۔(انجیل شریف راوی حضرت لوقا رکوع ۱۸آیت ۹سے ۱۴)۔

        خاموشی

          بہت سے ایسے مسیحی ہیں جو منجئی عالمین سیدنا مسیح کے مبارک الفاظ کی تابعداری کرتے ہوئے قید کو بھگت رہے ہیں۔ منجئی عالمین سیدنا مسیح نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیاکہ دنیا میں جائیں اورانجیل شریف کی تبلیغ کریں۔

          " آپ نے ان سے فرمایا تم تمام دنیا میں جاکر ساری خلق  کے سامنے انجیل کی تبلیغ کرو"(انجیل شریف راوی حضرت مرقس رکوع ۱۶آیت ۱۵)۔

          بہر صورت بہت سی اسلامی حکومتوں نے سیدنا مسیح کے بہت سے پیروکاروں کو صرف اسی حکم کی بجاآوری کرنے کی وجہ سے قید میں ڈالا۔ اس لمحہ بھی بہت سے ایسے عاشقانِ مسیح ہیں جو قید میں ہیں اور اُن کا جُرم صرف اتنا تھا کہ وہ انجیل شریف کی تبلیغ بردارانِ اہل اسلام میں کررہے تھے۔ اگرکوئی مسلمان عیسائی بن جاتا آیا مرد ویازن اس کو ترکِ مسیحیت کرکے دوبارہ مسلمان بنناہے۔ ورنہ اُنہیں اسلام سے مرتد قرار کرکے سزادی جاتی ہے۔

          ہم اپنے قارئین کی خدمت میں ایک انگریزی اخبار کے اقتباس کا ترجمہ ہدیہ نظر کرتے ہیں ۔

          " طالبان نے کہا کہ اُنہوں نے آٹھ غیر ملکی رکن سے یہ اعتراف کروایا ہے وہ بہت سے مسلم خاندانوں کو مسیحیت کی تعلیم دیتے تھے۔ اورطالبان کے قانون کے مطابق تبدیلِ مذہب کی سزا یہ ہے کہ اُن مسلم افغانیوں کو سزائے موت دی جائے اوراُن غیر ملکیوں کو قید میں ڈالا جائے "

Associated Press August. 8.2001

          مغربی اسلامی تنظیمیں بہت بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں کہ اسلام انسانی حقوق کی عزت کرتاہے۔ مگراُن میں سے بہت سی اسلامی تنظیمیں ان بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے جواسلامی مملکیت میں وقوع ہوتی ہیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تاہم اگراُنہوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے تودوسروں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ آواز بلند کریں اور اِن اسلامی جرائم کے حوالے سے خاموشی اختیار نہ کریں جواللہ اوردین کے نام میں ہوتی ہیں۔

          دینی جبر باقی تمام مظالم سے زیادہ بدتر ہے۔ کیونکہ دینی مستعدوں کا یہ یقین ہے کہ اُن کو جنت کا یقین دلانے کیلئے ظلم کرنا روا ہے۔ یہ روحانی اندھے ہیں جویہ سوچتے ہیں کہ دینی جبرکرنے سے اللہ کی الہٰی رضا حاصل ہوتی ہے۔اکثر وپیش تر وہ بلوہ اوردست درازی کرتے ہیں کیونکہ اُن کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ مسلمان مرتدکو مار کر اُنہیں اللہ کی ازلی رضا حاصل کرنے کا موقع ملتاہے۔ جج اوروکلاء جوقانونی اقدام اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کو بھی شدت پسند مسلمانوں سے اپنی جان کا خطرہ ہوتاہے۔ یہ شدت پسند مسلمان مرتد کا خون کرنا چاہتے ہیں ۔ درحالیکہ اُن عاشقانِ مسیح کیلئے جوسیدنا مسیح کے پیار اور فرمانبرداری کی خاطر اسلامی زندانوں میں قید بھگت رہے ہیں ۔مذہبی شدت پسند ہوتے ہوئے یہ کہناکہ " انہیں واپس بھیج دو" اُن کیلئے ناممکن سی بات  ہے۔          

Posted in: اسلام | Tags: | Comments (0) | View Count: (15013)
Comment function is not open
English Blog