عید الاضحیٰ اور یسوع مسیح کی قربانی
ڈاکٹر دانیال
قربانی کے معنی : قریب آنا ، مقبول ہونا مطلب وہ ھدیہ جو اس غرض سے پیش کیا جائے کہ قربانی دینے والا اور لینے والا ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں۔ خدا یا دیوتا کی رضا حاصل کرنے کے لیے کسی جاندار کو ذبح کرنے یا جلانے کا عمل قربانی کہلاتا ہے ۔
قربانی کا تصور الہامی اور غیر الہامی مذاھب میں پایا جاتا ہے۔ مسیح یسوع ( عیسیٰ مسیح ) کا ذکر بھی اسلام اور مسیحت میں پایا جاتا ہے۔ مسیح بطور قربانی کیوں؟
خدا اور انسان میں جدائی کون لاتا ہے ؟ گناہ :
یسعیاہ باب ۵۹ ، ۱دیکھو خُداوند کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہو گیا کہ بچا نہ سکے اور اُس کا کان بھاری نہیں کہ سُن نہ سکے۔ 2بلکہ تُمہاری بدکرداری نے تُمہارے اور تُمہارے خُداکے درمِیان جُدائی کر دی ہے اور تُمہارے گُناہوں نے اُسے تُم سے رُوپوش کِیا اَیسا کہ وہ نہیں سُنتا۔ 3کیونکہ تُمہارے ہاتھ خُون سے اور تُمہاری اُنگلیاں بدکرداری سے آلُودہ ہیں ۔ تُمہارے لب جُھوٹ بولتے اورتُمہاری زُبان شرارت کی باتیں بکتی ہے۔
خون کے بغیر معافی نہیں :
عبرانیوں باب ۹ ، 22اور تقرِیباً سب چِیزیں شرِیعت کے مُطابِق خُون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغَیر خُون بہائے مُعافی نہیں ہوتی۔ (انسان کے لئے خدا کی راہ معافی )
خون کفارہ دیتا ہے ؟ احبار ۱۷ ، 11کیونکہ جِسم کی جان خُون میں ہے اور مَیں نے مذبح پر تُمہاری جانوں کے کفّارہ کے لِئے اُسے تُم کو دِیا ہے کہ اُس سے تُمہاری جانوں کے لِئے کفّارہ ہو کیونکہ جان رکھنے ہی کے سبب سے خُون کفّارہ دیتا ہے۔( گناہ انسان کرتا ہےخون جانور کا بہایا جاتا ہے، قبول خدا کرتاہے)
کیونکہ گناہ موت لاتا ہے :
رومیوں ۶ ، 23کیونکہ گُناہ کی مزدُوری مَوت ہے مگر خُدا کی بخشِش ہمارے خُداوند مسِیح یِسُو ع میں ہمیشہ کی زِندگی ہے۔ ( خدا تعالی گناہ کی عدالت کرتا ہے ، (سدوم عمورۃ شہر ، نینوہ شہر دیگر اقوام)
حزقی ایل ۱۸ ، 4دیکھ سب جانیں میری ہیں جَیسی باپ کی جان وَیسی ہی بیٹے کی جان بھی میری ہے ۔ جو جان گُناہ کرتی ہے وُہی مَرے گی۔
مسیح کے خون بہانے کے سبب سے خدا تعالیٰ سے قربت :
افسیوں باب ۲ ،۱۳مگر تُم جو پہلے دُور تھے اب مسِیح یِسُو ع میں مسِیح کے خُون کے سبب سے نزدِیک ہو گئے ہو۔ پطرس کا پہلا خط باب ۱ ، ۱۷اور جب کہ تُم باپ کہہ کر اُس سے دُعا کرتے ہو جو ہر ایک کے کام کے مُوافِق بغَیر طرف داری کے اِنصاف کرتا ہے تو اپنی مُسافِرت کا زمانہ خَوف کے ساتھ گُذارو۔ ۱۸کیونکہ تُم جانتے ہو کہ تُمہارا نِکمّا چال چلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اُس سے تُمہاری خلاصی فانی چِیزوں یعنی سونے چاندی کے ذرِیعہ سے نہیں ہُوئی۔ ۱۹لکہ ایک بے عَیب اور بے داغ برّے یعنی مسِیح کے بیش قِیمت خُون سے۔۲۰اُس کا عِلم تو بِنایِ عالَم سے پیشتر سے تھا مگر ظہُور اخِیرزمانہ میں تُمہاری خاطِر ہُؤا۔ کہ اُس کے وسِیلہ سے خُدا پر اِیمان لائے ہو جِس نے اُس کو مُردوں میں سے جِلایا اور جلال بخشا تاکہ تُمہارا اِیمان اور اُمّید خُدا پر ہو۔
خدا کی محبت ظاہر ہوئی رومیوں ۵، :۸ لیکن خُدا اپنی مُحبّت کی خُوبی ہم پر یُوں ظاہِر کرتا ہے کہ جب ہم گُنہگار ہی تھے تو مسِیح ہماری خاطِر مُؤا۔ ۹پس جب ہم اُس کے خُون کے باعِث اب راست باز ٹھہرے تو اُس کے وسِیلہ سے غضبِ اِلہٰی سے ضرُور ہی بچیں گے۔
مسیح میں گناہوں کی معافی :
افسیوں ۱، ۵اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے مُوافِق ہمیں اپنے لِئے پیشتر سے مُقرّر کِیا کہ یِسُو ع مسِیح کے وسِیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں۔ ۶تاکہ اُس کے اُس فضل کے جلال کی سِتایش ہو جو ہمیں اُس عزِیز میں مُفت بخشا۔ ۷ہم کو اُس میں اُس کے خُون کے وسِیلہ سے مخلصی یعنی قصُوروں کی مُعافی اُس کے اُس فضل کی دَولت کے مُوافِق حاصِل ہے۔ ( ۱ یوحنا کا خط باب ۱ ، ۷تا ۹ آیات )
مسِیح کی قُربانی گُناہوں کو دُور کردیتی ہے
۲۳پس ضرُور تھا کہ آسمانی چِیزوں کی نقلیں تو اِن کے وسِیلہ سے پاک کی جائیں مگر خُود آسمانی چِیزیں اِن سے بِہتر قُربانِیوں کے وسِیلہ سے۔ ۲۴کیونکہ مسِیح اُس ہاتھ کے بنائے ہُوئے پاک مکان میں داخِل نہیں ہُؤا جو حقِیقی پاک مکان کا نمُونہ ہے بلکہ آسمان ہی میں داخِل ہُؤا تاکہ اب خُدا کے رُوبرُو ہماری خاطِر حاضِر ہو۔ ۲۵یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار قُربان کرے جِس طرح سردار کاہِن پاک مکان میں ہر سال دُوسرے کا خُون لے کر جاتا ہے۔ ۲۶ اورنہ بِنایِ عالَم سے لے کر اُس کو بار بار دُکھ اُٹھانا ضرُور ہوتا مگر اب زمانوں کے آخِر میں ایک بار ظاہِر ہُؤا تاکہ اپنے آپ کو قُربان کرنے سے گُناہ کو مِٹا دے۔ ۲۷اور جِس طرح آدمِیوں کے لِئے ایک بار مَرنا اور اُس کے بعد عدالت کا ہونا مُقرّر ہے۔ ۲۸اُسی طرح مسِیح بھی ایک بار بُہت لوگوں کے گُناہ اُٹھانے کے لِئے قُربان ہو کر دُوسری بار بغَیر گُناہ کے نجات کے لِئے اُن کو دِکھائی دے گا جو اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔۔ (اہل اسلام اور اہل مسیحت تمام اُسکی آمد کے منتظر ہیں مگر کیا اُسکی برکت کے ساتھ یا برکت کے بغیر؟ )
Posted in: | Tags: | Comments
(0) | View Count: (8402)